جمہوریت کا عذاب حامد کمال الدین



جمہوریت کا عذاب
حامد کمال الدین
’ہمارے ساتھ براہو ا ہے‘...!
یہ شکایت اب بچے بچے کی زبان پر ہے ۔ پتہ چلتا ہے کہ قوم نے ایک بات سمجھی ہے ! یہ کوئی عقدہ نہیں تھا مگراسے کھلنے میں ہمارے ساٹھ سال لگے!!!
مگر یہ سب ہوا کیسے؟ یہ عقدہ کھلنے کے لیے شاید ابھی صدیاں درکار ہیں! اپنے دین کی حقیقت سے قوم کو لا علم رکھنا کتنا بڑا ظلم ہے!
یہ خواری ہوئی کیسے...؟
’مغربی جمہوریت‘ مغرب کی ایک بنیادی ضرورت سہی مگر ہم غریب ترقی پذیر معاشروں کیلئے اس کی نظر میں یہ ایک عیاشی ہے۔ خود مغربی جمہوریت میں بھی ضرور اچھے اور برے پہلو پائے جاتے ہونگے مگر ہمارے لئے ا س کے پاس صرف چھان بچتا ہے۔ جمہوریت کفر سہی پھر بھی اس میں کچھ تو ذائقہ ہو! بر ے پہلوؤں کے ساتھ ساتھ کچھ اچھے پہلو بھی تو ہم سنتے آئے تھے مگر’ہماری‘ جمہوریت میں وہ کہا ں گئے ؟ ہمارے حصے میں کنکر ہی کیوں آئے؟ یہودی اور عیسائی ہمارے ساتھ ہاتھ کر گئے ! بخدا وہ اس قابل کہا ں تھے۔ ہم نے آپ اپنے ساتھ ہاتھ کرلیا۔ ہمارے اسلاف کا پالا بھی تو اِنہی سپر طاقتوں سے پڑا تھا ۔ تب بھی یہی یہودی اور عیسائی تھے۔ مگر ہمارے بڑے ان کی اوقات پہچان گئے تھے کیونکہ وہ قرآن پڑھتے تھے۔ قرآن پڑھنے سے یہ سب باتیں خود بخود معلوم ہوجاتی ہیں ۔ یہودو نصاریٰ کے سب راز فاش ہوجاتے ہیں۔ ان کے بس کی گانٹھ مرجاتی ہے اور یہ بے دست و پا ہوکر رہ جاتے ہیں۔

اس قرآن سے اور اپنے ان اسلاف سے منہ موڑ کر ہم نے فکر و نظر اور علم و تہذیب کے میدانوں میں آپ اپنے لئے جو یتیمی اختیار کرلی تو پوری دنیا ہم پر شیر ہوگئی۔ اب وہ نہیں ہم بےدست و پا ہوچکے تھے۔ تب ہر قوم کو اپنے دیرینہ بغض نکالنے کی سوجھی۔ ہزار ہزار سال پرانے بدلے چکانے کی ٹھانی گئی۔ اور تو اور، سو سال سے اب ایک ہندو ہی ہم سے سنبھالے نہیں سنبھلتا! بیسویں صدی میں کوئی ایک دم تو ہندو کی افزائش نسل نہیں ہو گئی! ہم نے دراصل  اپنے آپ کو بےسہارا کرلیا۔ ورنہ یہ سب قومیں بار ہ سوسال سے یہیں تو تھیں! کب انہوں نے ہم پر دانت نہیں پیسے؟ مگرقرآن کا سایہ جب تک ہم پر رہا بلکہ یوں کہئے جب تک ہم نے اپنا آپ یتیم نہیں کرلیا یہ سب قومیں یہیں کونوں کھدروں میں دبکی پڑی رہی تھیں۔ یہ خونی درندے وہ تمام عرصہ سبزی خور بنے رہے تھے۔ مگر ہمارے اپنے ہی اعمال کے سبب، قرآن کا سایہ اٹھنے کی دیر تھی کہ اس نایاب موقعے سے فائدہ اٹھانے کو ہر قوم دوڑی کہ کیا معلوم کب تک یہ موقع رہے اور کب یہ امت قرآن کی طرف پلٹ آئے۔ پھرسب کو بہت جلدی تھی۔ ہر ایک ہم پر پل پڑا۔ کسی نے ہماری گردن دبوچ لی۔ کسی کے ہاتھ ہماری زمین لگی، کسی کے ہاتھ ہمارا پیسہ، اور کوئی ہمارے وسائل لے کر چلتا بنا۔ وہ تو ہمارے نبی کی دعا کا اثر تھا کہ اس امت کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے پر خدا کی طرف سے کسی دشمن کو اختیار نہیں دیا گیا[1]۔ سو ہماری جان سلامت رہی تو وہ بھی ہمارے نبی کی دعا کے اثر سے۔ ورنہ مار پڑنے میں ہمیں کوئی کسر نہیں رہی۔ پھر جب ہمیں نہتا کردیا گیا، رہا سہا سب کچھ ہم سے لے لیا گیا، تو ہمیں ارزاں نرخ پر نوکررکھنے کا فیصلہ ہوا۔ نوکر کو ہر کوئی کھلاتا ہے، یہ دنیا کا دستور ہے، مگر وہ نہیں جو مالک خود کھائے یا جو نوکر طلب کرے۔ پیٹ بھر کر دیا جائے یا کم ، یہ بھی انہی کا اختیار تھا۔ ہمیں کیا مزدروی کرنی تھی؟ اپنے سب وسائل اب ہمیں اپنے ہی ہاتھ سے کھود کھود کر اور فصلیں اُگا اُگا کر ان کے خزانے بھرنے تھے۔ ٹیکسوں سے گلے بھربھر کر انکو دینے تھے۔ ہم پر خود ہماری ہی نسل کے کچھ فرض شناس ’ٹیکس کلکٹر‘ تعینات کردیےگئے۔ کچھ دیر ہمیں اور ا ن کو اپنی نگرانی میں تربیت دےلینے کے بعد وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ ٹیکس کلکٹر‘ رہ گئے۔ اپنی نوکری وہی رہی۔ تنخواہ اس سے بھی کم ہوگئی۔ کہا گیا کہ یہ آزادی کا مول ہے۔ کس کی آزادی ؟ ہمارے ’ٹیکس کلکٹروں‘ کی ! انکی خوب چاندی بنی۔ آزادی ’انسان‘ کی بنیادی ضرورت ہوا کرتی ہے ، سو سال تک وہ یہ بات ولایت میں پڑھ پڑھ کرآتے رہے تھے۔ ہندوستان میں کچھ عشروں کی محنت کرکے بالآخر ان (’ٹیکس کلکٹروں‘) نے ہمیں اس بات پر تیار کرلیا کہ ہم انہیں انگریزوں سے’آزادی‘ دلادیں۔ ہماری سب امیدیں اپنے ان ولایت پڑھوں سے ہی وابستہ تھیں۔ ہم نے آج تک انکے کون سے ناز نہیں اٹھائے۔ ہم نے ان سے یہ تک نہ پوچھا کہ اس منصوبے پر ہماری کیا لاگت آئے گی۔ ہم نے انکو آزادی لےدی۔ ہماری اگلی پچھلی پونجی ملا کر بھی اس کیلئے ناکافی نکلی۔ مگر یہ کوئی واپس کرنے کی چیز تھوڑی ہے۔ ہم نے اپنے ہر دلعزیز لیڈروں کی، جنہیں ہم کندھوں پر اٹھااٹھا کر ایوان اقتدار میں پہنچاتے رہے، اس بنیادی انسانی ضرورت کو پورا کرنے کےلئے قرضے اٹھائے۔ ہماری خوش قسمتی ، قرضے بخوشی دے دیے گئے۔وہ اب ہم ’آسان ‘ قسطوں پرا پنی تنخواہ میں کٹاتے ہیں۔ ضرورت پڑے تو اور قرضے لے لیتے ہیں۔ ہم ایک خوددار قوم ، روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرلیا مگر اپنے لیڈروں کی ’آزادی‘ پرآنچ نہ آنے دی !ہمارے لیڈر دنیا میں فخر سے سر بلند کرسکتے ہیں؛  قوم پر ناز کرسکتے ہیں۔ اب بھی’آزادی‘ کی تقریبات میں قوم کا جوش و خروش دیدنی ہے اور ہمار ے لیڈر سر تاپیر اِس قوم کے ممنون!
اس کے بعد ایک سوال باقی تھا ۔آخرہمیں پتہ کیسے چلے کہ ’آزادی‘حاصل ہوچکی؟ ہم اس طرح کیسے یقین کرلیں ، اس بات کی کوئی نشانی ہونی چاہیے۔یہ جاننا ہمارا انسانی حق مانا گیا۔ واقعی پتہ چلنا چاہیے کہ آزادی کے حصول ایسا عظیم الشان واقعہ اِس قوم کے حق میں پیش آچکا ہے۔ آخر آپ نے اس کی قیمت دی ہے رسید تو ملنی چاہیے۔ کیوں نہیں، اس کے بدلے میں آپ ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ آزادی کی اِس سے بڑی علامت کیا ہوسکتی ہے! ایک آزاد قوم کی اِس کے علاوہ کیا نشانی ہے!اس کے سر پر سینگ تو نہیں ہوتے وہ ووٹ ہی تو ڈالتی ہے! آپ بھی بار بار ووٹ ڈالئے۔ کوئی مغربی قوم انتخابی ٹرم کے دوران اگر ایک بار ووٹ ڈالتی ہے تو آپ دوبار ڈالئے۔ کچھ طبیعت اکتا جائے تو درمیان میں ریفرنڈم کروائیے۔ اپنی پسند کے جس امیدوار کو د ل چاہے اور جتنی دیر تک چاہے کندھے پر اٹھا کر پھریئے جی بھر جائے تو پٹخ دیجئے۔ بار بار ’کندھے‘ بدلئے ۔اسلام پسندوں کےلئے بس ایک غیر مرئی چھلنی لگی ہے لہذا ان پر ووٹ ضائع مت کیجئے البتہ جو ’اسکیننگ‘ سے گزر جائیں ان میں سے جس کا پسند ہو انتخاب فرمایئے۔دیواروں اور شاہراہوں پر اشتہار کی کوئی جگہ نہ چھوڑیئے ۔ شوق سے جتنا جی چاہے شور اٹھایئے ۔ اودھم مچایئے۔ یہ آپ کا اپناملک ہے آپ نے قربانیوں سے لیا ہے۔ اس میں ’آزادی‘ کے اپنے سب ارمان پورے کیجئے۔ انتخابی سیاست سے کبھی دل تنگ ہی آجائے اور مارشل لاءکو آپ کااپنا ہی جی چاہے تو اس کا بھی بندوبست ہے!
آپ نے غور کیا ہوگا، ہر فوجی حکمران کی افتتاحی تقریر کا مرکزی نکتہ یہی ہوتا ہے کہ یہ ’ناگزیر اقدام‘ اُس نے محض عوام کی خواہش اورمطالبے پر مجبوراً  کیا! یعنی، حوالہ یہاں بھی ’عوام‘! جمہوریت کی روح گویا یہاں بھی برقرار ہے! حقیقت یہ ہے کہ کچھ وقت گزرجانے کے بعد بےشک عوام اس کی صحت سے انکاری ہوجائیں مگر ایک فوجی حکمران کا یہ دعویٰ خاص اُس لمحے کچھ ایسا غلط نہیں ہوتا؛ اگر وہ برسوں کے برس ان پر مسلط نہ رہے تو شاید عوام اپنے اس نجات دہندہ کو سنہری الفاظ میں یاد کریں! یوں بھی چوروں میں گھِرا آدمی کب کہیں پناہ نہیں ڈھونڈتا! یہاں کی جمہوریت جس طرح عوام کا تیل نکالتی ہے یہاں تک کہ بلک بلک کر ان کی زبان نکل آتی ہے پھر بھی ترس کھانے کا کوئی سوال نہیں، اِس جمہوریت سے بھاگ کر تو لوگ خودکشی میں پناہ ڈھونڈتے ہیں پھر مارشل لاء کیا بڑی بات ہے! اگر اِن نیم بسمل عوام ہی کی سب سے بڑی آرزو کسی وقت ’مارشل لاء‘ ہوجائے تو اِس میں ویسے غیرجمہوری بات کونسی ہے! تھرڈورلڈ کی جمہوریت جب ایک جبری مشقت ہے تو قوم کو اس میں کچھ وقفہ لینے کا حق کیوں نہیں ہونا چاہئے! اِس لحاظ سے؛ بعض کالونیوں میں جہاں جمہوریت خاصی ارزاں کوالٹی میں دستیاب ہے مارشل لاء ’جمہوری پیکیج‘ کے ساتھ ہی آتا ہے اور جمہوریت کی ناقابل برداشت تپش سہنے کےلیے سسٹم میں ریڈی ایٹر کا کام دیتا ہے! یہ نہ ہوتا تو جمہوریت کی گاڑی بھک سے اڑچکی ہوتی... اور لوگ خلافت کی طرف رخ کرتے!
چنانچہ ایک بجٹ کی استثناء کو چھوڑتے ہوئے...  جس پر کیا سول کیا فوجی، سب حکومتیں ’مجبورِ محض‘ ہیں؛ کہ یہ آزادی کی قیمت ہے اور اپنی جمہوریت کا بل؛ جسے ہم سب کو خوشی خوشی دینا ہی ہے...  ملک کا باقی کونسا ایسا مسئلہ ہے جو عوام کی مرضی اور خواہش کے بغیر انجام پا جاتا ہے! بلکہ کونسا معاملہ ایسا ہے جو عوام کے پر زور اصرار اور فرمائش کے بغیر تکمیل پاتا ہے؟ ہم جب کسی حکمران کو لاناچاہتے ہیں تب وہ آتا ہے نا، اس سے پہلے تو نہیں آجاتا! جتنی دیر اسے زندہ باد رکھتے ہیں اس سے زیادہ تو نہیں رہتا! جب اس کو مردہ باد بولتے ہیں اس سے تھوڑی ہی دیر بعد بیچارہ چلا نہیں جاتا! اس کوپھر بلائیں وہ تب انکار نہیں کرتا۔ اس کو پھر دفع ہوجانے کےلئے کہیں تب ہماری یہ خواہش پوری ہونے کا کوئی نہ کوئی انتظام ہوجاتا ہے۔ یہاں کس چیز میں ہماری نہیں چلتی غریب ہیں روکھی سوکھی کھاتے ہیں مگر آزاد تو ہیں!
اِس سسٹم کی سب سے دلکش و پرکشش بات... نااُمیدی کا  یہاں دور دور تک گزر نہیں! یہ سسٹم جب ہے ہی اس لیے کہ آپکی سنی جائے؛ آپکی خواہش جاننے کےلیے نیتا  خود چل کر آپکی چوکھٹ پر آئے اور تاعمر آپکے آگے جوابدہ رہے تو آپکی خواہشات اور مطالبات پورے ہوئے بغیررہ جانے کا تو سوال ہی نہیں! دیکھئے نا ایک سسٹم بنا ہی اس لیے ہے اور استبدادی نظاموں سے اُسکا سارا فرق ہی یہ ہے کہ آپ خود اپنے حاکم ہوں اور یہاں صرف آپکی مرضی چلے نہ کہ کسی فردِواحد یا چند افراد کی، ایک سسٹم کی وجہ تسمیہ ہی یہ ٹھہری کہ عوام اپنی قسمت کے آپ مالک ہیں، دنیا کے دیگر طرزہائے حکومت سے اِسکی لڑائی  ہی اس نکتے پر ہے کہ کوئی آپ پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتا... تو آپکی شنوائی تو یہاں ہوگی! یہاں آپ جو چاہیں جس وقت چاہیں بدل ڈالیں؛ اِس سسٹم کا مطلب ہی یہ ہے! کوئی آپکی توقعات پر پورا نہیں اترتا تو یہ کوئی بادشاہت تھوڑی ہے؛ آپ اسکو کان سے پکڑ کر نکال دیجئے۔ بڑے آرام کے ساتھ اسے ’تبدیل‘ کردیجئے۔ جمہوری عمل اور ناامیدی، چہ معنی؟ اب اگلے الیکشن ہوں تو اسکے بجائے آپ کسی اور کو ووٹ دیجئے۔ دوسرے نمائندوں کو آگے لایئے؛ تاکہ اِسکو سبق ہو۔ نیا پارلیمانی بلاک تشکیل دیجئے۔ ’پریشر گروپ‘ کی ٹیکنیک آزمائیے۔ اگلی بار کے الیکشن میں کسی اور پارٹی سے انتخابی اتحاد کیجئے؛ وہ بدبخت بھی اپنے وعدے سے پھر جائے تو یہاں پارٹیوں کی کیا کمی ہے۔ جمہوریت تعددِ احزاب پر یقین رکھتی ہے۔ ہر نیا الیکشن یہاں نئے امکانات لےکر آتا ہے۔ آپ دن گنتے جایئے مگر زندگی اسی جمہوریت کے آسمان تلے گزاریئے۔ یہی دنیا ہے؛ اس سے باہر آپ کہاں جائیں گے۔ اورا سکا متبادل آپکے پاس ہے کیا!
یعنی... ایک عالمی نظام کی وہی پرانی نوکری! اسی تنخواہ میں عالمی ایلیٹ کی سیوا؛ اسی کے منظورِنظر چہروں کےلیے باربار تالیاں!
یہ ضرور ہے کہ یہ اپنے انداز کی ایک منفرد نوکری ہے۔ ایک دائرے کے اندر اندر آپکو واقعی پوری آزادی حاصل ہے۔ چناؤ کے سبھی راستے  آپکے سامنے ’کھلے‘ ہوتے ہیں جن کے رد یا اختیار کا آپکو پورا پورا اختیار ہوتا ہے اورتھوڑےتھوڑے فرق کے ساتھ ان میں اتنا ’تنوع‘ ہوتا ہے کہ واقعتاً آپکو یہ پوری ایک دنیا لگتی ہے۔ اس دائرے پر دنیا آپکو ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ؛ یہ ’دائرہ‘ نظرسے اوجھل کردیا جاتا ہے ۔ کوئی آپکوپکڑکر نہیں رکھتا البتہ اسکے باہر خود ہی آپکی نظر نہیں جاتی۔ حتی کہ تخیل کی سرحد یہی ہوجاتی ہے۔ اکادکا کسی شخص کی نظر اس سے باہر چلی جائے تو بھی کیا فرق پڑتا ہے؛ لوگ خود ہی اسکو ’جنونی‘ اور انتہاپسند‘ کہہ کر بٹھا دیں گے۔ بطور قوم آپ اس دائرے کے اندر حیران کن تیزی اور سرگرمی سے عمل کرتے ہیں مگردائرے سے کبھی نکلتے نہیں۔ اس میں اضافی طور پرآپکویہ یقین دلادیا جاتا ہے کہ اپنی یہ دنیا آپ نے بڑی محنت اور جان جوکھوں سے خود بنائی ہے۔ اِس کےلیے آپ نے قربانیاں دی ہیں! یہ آپ نے اپنے زورِ بازو سے حاصل کی ہے؛ اور آپکی سب سے قیمتی پونجی یہی ہے۔ تب آپ اس سے اور بھی وابستہ ہوتے اور ’قربانیوں‘ کیلئے مزید تیار ہوتے ہیں۔ اب ’مواقع‘ وہی جویہاں پائے جائیں۔ ’مجبوریاں‘ وہی جو یہاں سمجھی جائیں۔ چناؤ کے امکانات صرف وہی جو یہاں دستیاب ہوں۔ ’گنجائش‘ اور ’چارہ جوئی‘ کے سب مفہومات آپکی نظر میں اب یہیں سے شروع ہوکر یہیں ختم ہوجاتے ہیں ۔ اس سے باہر اگر کسی چیز کا وجود تسلیم ہوتا ہے تو وہ خلاہے!
غرض یہ ایک ذہنی اور نفسیاتی حصار ہے۔ اس کو آزادی کی نیلم پری میں بدل ڈالنے کےلئے کچھ کرشمے چاہئیں۔ ان میں سر فہرست یہاں کی ’جمہوریت‘ ہے ۔ یہ نہ ہو تو ہمیں یہ یقین ہی نہ آئے کہ ہم ایک ’آزادقوم ‘ ہیں۔ بار بار ووٹ دے کرہمیں اس بات کا کہیں زیادہ یقین آئے گا! اپنی ’قسمت‘ کی پرچی پر خود مہر لگائیں تو قسمت پھوٹنے پر افسوس تو نہ ہوگا! اپنی مرضی سے آزادانہ اپنے نمائندے منتخب کریں ، جس کو چاہیں مینڈیٹ دیں جس کا چاہیں مینڈ یٹ ضبط کرلیں آخر یہ اسی بات کی دلیل تو ہے کہ ہم اپنے فیصلے آپ کرتے ہیں! ہم نے نشانی طلب کی تھی جس سے ہمیں پتہ چلے کہ آزادی کے حصول ایسا واقعہ ہماری زندگی میں کامیابی کے ساتھ رونما ہوچکا ہے۔ ہماری یہ جمہوریت ہمارے اسی سوال کا جواب ہے!


[1]      وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي أَنْ لَا يُهْلِكَهَا بِسَنَةٍ عَامَّةٍ وَأَنْ لَايُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ وَإِنَّ رَبِّي قَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً فَإِنَّهُ لَا يُرَدُّ وَإِنِّي أَعْطَيْتُكَ لِأُمَّتِكَ أَنْ لَا أُهْلِكَهُمْ بِسَنَةٍ عَامَّةٍ وَأَنْ لَا أُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ يَسْتَبِيحُ بَيْضَتَهُمْ وَلَوْ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْمَنْ بِأَقْطَارِهَا أَوْ قَالَ مَنْ بَيْنَ أَقْطَارِهَا حَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يُهْلِكُ بَعْضًا وَيَسْبِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا
(صحیح مسلم عن ثوبان، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب هلاكِ هذه الأمةِ بعضِهم ببعض، رقم: 5144)
’’اور میں نے اپنی امت کےلیے پروردگار سے درخواست کی کہ وہ انہیں کسی قحطِ عام سے ہلاک نہ کرے۔ اور یہ کہ وہ ان پر بیرون سے کوئی ایسا دشمن مسلط نہ ہونے دے جو انہیں صفحۂ ہستی سے مٹا دے۔ پروردگار نے فرمایا: اے محمدؐ! میں جب فیصلہ فرمادوں تو وہ لوٹایا نہیں جاتا۔ تمہاری امت کےلیے میرا تم سے وعدہ رہا کہ میں انہیں کسی قحطِ عام سے ہلاک نہ کروں، اور ان پر بیرون سے کوئی ایسا دشمن مسلط نہ ہونے دوں جو انہیں صفحۂ ہستی سے مٹادے، چاہے دشمن زمین کے کونے کونے سے اکٹھے ہوکر کیوں نہ آلیں۔ یہاں تک کہ وہ (تمہاری امت کے لوگ) خود ہی ایک دوسرے کو ہلاک کرتے اور غلام بناتے پھریں‘‘۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی