مغربی‘ کس نے کہا ’’تھرڈ ورلڈ کی جمہوریت حامد کمال الدین



مغربی‘ کس نے کہا ’’تھرڈ ورلڈ کی جمہوریت’’!
حامد کمال الدین
آج کے اس پوسٹ کولونیل دور (Post Colonialism Era) میں استعمار کی ہر کالونی جس جمہوریت کے قابل سمجھی گئی اسے ویسی ہی جمہوریت دی گئی۔ اگرچہ مسئلہ ’طلب‘ پر نہیں ’رسد‘ پر موقوف تھا مگر یہ مانناپڑےگا کہ ایجاب و قبول کی رسم پوری ہوئے بغیر یہاں کچھ نہیں کیا گیا۔ یہ ہم پر نرا پرا دھکا اور زبردستی نہیں تھی۔ خود جمہوریت کے ’اصول‘ بھی اس کی اجازت نہیں دیتے!
ہمیں جو دیا گیا اسے بخوشی قبول کرنا ہم نے اپنے لئے سعادت جانا۔ پچھلی نصف صدی سے یہاں اب کچھ بھی ہماری مرضی کے بغیر تو نہیں ہوا۔ کوئی کب تک کسی کے ساتھ زبردستی کرسکتا ہے! یہ محض طنز نہیں؛ بلاشبہ ہمیں ایک خاصے بڑے دائرے کے اندر آزادی حاصل ہے۔  یہ الگ بات کہ ہمیں آزادی کا استعمال اتنا ہی آتا تھا! اور اہم تر بات یہ کہ آزادی کا یہ استعمال ہماری ایک طویل ٹریننگ کا نتیجہ تھا! (اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کی طرف ہمارے چارہ گروں کی توجہ تقریباً نہیں گئی ہے؛ نہ اس نظام کی حمایت کرنے والوں کی اور نہ اِس کے معترضین کی)۔ اِس لحاظ سے ماننا چاہئے ہماری تربیت اچھی ہوئی تھی! ہماری ’تعلیم‘ پر یونہی اتنا خرچہ نہیں کیا گیا، اور جوکہ استعمار نے یہاں آتے ہی (دوصدی قبل) شروع کردیا تھا۔ صدی بھرشاگرد رہ لینے کے بعد ہمیں اب ’ناں‘ کرنے کی عادت نہ رہی تھی۔ اُدھر سے جو آئے وہ اِدھر آپ سے آپ چلتا ہے۔  نام ہی کافی ہے!  وہ اصلی نہ ہو مگر حوالہ اُدھر کا ہو پھر بھی چلتا ہے۔ یوں جو بھی وہاں سے ملے اس کو غنیمت جاننا بڑے عرصے سے ہما را مسلک ہے۔ ناکارہ سے ناکارہ سسٹم بھی اگر بنا بنایا ملے تو کیا ہی خوب ہے اور اگر وہ کسی چھوٹی موٹی کارروائی سے ’اسلامی‘ بھی ہو سکے پھر تو زہے نصیب! کوئی اتنا بڑا فرق تو ہے نہیں ہم میں اور اُن اقوام میں؛ کسی ہلکی پھلکی بات سے اسلام کے تقاضے بھی پورے کرڈالے جائیں تو مسئلہ ہی حل ہوجائے!مغرب بھی خوش کہ ہم نے ’جمہوریت‘ کو اپنا رکھا ہے (اور جس کے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہم سے روڈمیپ مانگتا ہے)... اور اسلام بھی خوش کہ کم از کم ہم نے اُس کے زبانی تقاضے[1] پورے کرڈالے ہیں!



قصہ کوتاہ... اگر آپ کو جمہوریت درکار تھی تو یہ رہی جمہوریت؛ بڑے آرام سے شوق فرمائیے۔ اور اگر آپ کو ’مغربی جمہوریت‘ کی بابت کہیں سے عدم اطمینان لاحق ہوگیا ہے تو یہ لیجئے ’غیرمغربی جمہوریت‘ بلکہ ’روحانی جمہوریت‘، ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں اور آپ خود بھی کہیں سے جاکر چیک کرسکتے ہیں کہ یہ ’مغربی جمہوریت‘ ہرگز نہیں ہے۔ یہ مختلف کوالٹیوں میں آتی ہے۔ مغربی جمہوریت تو مہنگی بہت ہے آپ افورڈ ہی نہیں کرسکتے، بلکہ آپ کو مل جائے تو آپ استعمال نہیں کرسکتے؛ اس کےلیے آپ کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے، باشعور ہونا ضروری ہے، ایک خاص درجے کی سماجی تربیت حاصل کررکھنا ضروری ہے، آپ کے گھر میں ان سب چیزوں کا انتظام ہی نہیں ہے، مغربی جمہوریت لےکر آپ کیا کریں گے۔ یہ ذرا مختلف میٹرئل کی ایک چیز بنائی ہے اِسے ٹرائی کیجئے اور اپنی ’جمہوری‘ ضرورت پوری کیجئے۔ اِس میں کیا شک ہے؛ ہر گھر میں فرج اور ٹی وی کی طرح ہر ملک کی سب سے پہلی ضرورت آج جمہوریت ہی ہے۔ لیکن ہر گھر کی قوتِ خرید ایک سی نہیں۔  آپ جس جمہوریت کے متحمل ہیں وہ البتہ حاضر ہے! یہ ’مغربی‘ تو یقینی طور پر نہیں ہے، اس کو ’اسلامی‘ کرنا نہ کرنا آپ کی اپنی مرضی؛ کیونکہ آپ کے چند گنےچنے طبقے اس کو ’اسلامی‘ کے ساتھ لینا پسند کرتے ہیں  اور اکثر طبقے ’اسلامی‘ کے بغیر!

*****
آخر کیا ضروری ہے کہ مغرب آپ کو اپنے والی جمہوریت دے!
اور اِس پر اصرار بھی کیا ضروری ہے کہ صاحب یہ مغرب والی نہیں ہے!
’جمہوریت‘ کے کاپی رائٹس  جب مغرب کے پاس ہیں (اور یہ وہ بات ہے جس کی ایک دنیا شاہد ہے؛ ہمارے چند لوگوں کے اِس حقیقت کو نہ ماننے سے مغرب کو کچھ بھی فرق نہیں پڑتا)، ’جمہوریت‘ کی مالا جپنا جب بجائے خود مغرب کی عظمت کا اقرار ہے اور اقوامِ عالم پر مغرب کی سبقت  کا اعتراف اور مغرب کے قابلِ تقلید ہونے کا بیان... تو پھر کیا ضروری ہے کہ مغرب آپکو اپنی اصلی چیز ہی دے! آپکا جمہوریت کا ڈھنڈورہ  پیٹ لینا ہی جب مغرب کا نخرہ بڑھا دیتا ہے! نظام خواہ آپکا جو کوئی بھی ہو، محض آپکا یہ اصرار ہی کہ اسکا نام جمہوریت ہو اور جمہوریت کے علاوہ کچھ نہ ہو مغرب کی ناک اونچا کرنے کےلیے کافی ہے!
*****
مغربی جمہوریت مغرب میں پائی جاتی ہوگی، مان لیا۔ ہمارے ہاں پائی جانے والی جمہوریت کوئی مغربی جمہوریت نہیں، یہ ماننے میں بھی ہمیں تامل نہیں۔ مغربی نہیں تو ہماری بلا سے مشرقی ہوگی۔ گو ہمیں اگر اس کا نام تجویز کرنے دیا جائے تو ہم کہیں گے: تھرڈ ورلڈ کی جمہوریت۔ مگر ناموں کی بحث پر ہمیں اصرار ہی نہیں۔ آپ اس کو کوئی نام دے لیں اس پر ہمارے معترض ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے۔ البتہ جب آپ اس کے ساتھ لفظ ’’اسلام‘‘ چسپاں کریں گے تو اس پر ایک مسلمان کا اذیت محسوس کرنا طبعی امر ہے۔ آسمان سے اترنے والے اِس پاکیزہ دین کو اول تو ان پراگندہ افکار سے ملا دینا ہی ظلم ہے جو چرچ کی بھگوڑی اقوام اپنے لادین معاشروں کو چلانے کےلئے اپنے ملکوں میں آزماتی چلی آئی ہیں۔خود یہ بات ہی کسی ظلم عظیم سے کم نہیں۔ مگر ستم بالائے ستم یہ کہ اسلام کو اس جمہوریت سے نتھی کیا جائے جسے مغرب نے تھرڈورلڈ  کے ساتھ مخصوص کررکھا ہے! اسلام کا جوڑ لگایا بھی تو اس نظام سے جسے جمہوریت کے پرستار خود بھی جمہوریت کا مذاق قراردیں!
اپنی باقی مصنوعات کی طرح مغربی اقوام نے اپنا وہ اصل سیاسی نظام بھی ہمیں کب دیا ہے جو ان کے اپنے ہاں رائج ہے۔ اپنے اس نظام کا بھی ایک تھرڈ کلاس ایڈیشن جو انہوں نے تھرڈ ورلڈ اقوام کے لائق سمجھا اور جو کہ بنیادی طور پرتیسری دنیا میں پوسٹ کولونیل دور (Post-Colonialism era) کےلیے استعمار کا قائم کیا ہوا ایک ہنگامی انتظام تھا اور درحقیت ان معاشروں میں بد انتظامی برقرار رکھنے کی ایک کامیاب صورت... ’جمہوریت‘ کا یہ ایڈیشن جو صرف غلام اقوام کےلئے روا رکھا گیا تاکہ آقااور غلام کا فرق دور سے نظر آئے... اسے ہم ’اسلامی جمہوریت‘ مان لیں کیونکہ اسلام سے متعلق چند بےاثر ’دفعات‘ رکھ کر تھرڈورلڈ کے ساتھ ساتھ اس میں اسلام کے ساتھ بھی کچھ مذاق کیا گیاہے؟!
کس قدر عجیب بات ہے، اسلام کو جوڑا بھی گیا تو کس جمہوریت سے! ہم بھی کیا سادہ ہیں کہ وہ جمہوریت جو دل کے بہلاوے کےلئے تیسری دنیا کی پسماندہ اقوام کو محض ایک کھلونے کے طور پر ملی ہم اس کےلئے قرآن حدیث کے حوالے تلاش کرتے رہے! کتنا تعجب ہوتا ہے جب آپ سنتے ہیں کہ ’حضرت یہ جمہوریت تو ہے مگروہ جمہوریت نہیں جو آپ سمجھتے ہیں۔ وہ جمہوریت مغرب میں پائی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں ’اور طرح کی‘ جمہوریت ہے!‘
بالکل درست ۔ آپ چاہیں بھی تو آپ کو وہ جمہوریت نہیں مل سکتی ’جو مغرب‘ میں پائی جاتی ہے، اس جمہوریت کے قابل خدا کی ایک ہی مخلوق سمجھی گئی ہے اور وہ دنیا کی گوری اقوام ہیں۔ آپ کو جمہوریت کے نام پر کچھ اور ملا ہے۔ تیسری دنیا بھی عجیب ہے۔ مغرب کی اترن پہننے پر ہی فخر کرلیتی ہے!
مغرب کے ہاں جو جمہوریت پائی جاتی ہے آپ کو بھی و ہی میسر ہوتی تو اس سے چلیں گناہ لازم آتا مگر آپ کی دنیا تو کچھ سنو رتی! آپ کی آخرت جاتی مگر مغربی اقوام کی طرح آپ کے غریب پیٹ بھر کر تو کھاتے! یہ تو دنیا نہ آخرت!اس جمہوریت کا تو کوئی سر نہ پیر! افسوس کہ اسلام کے حصے میں آیا تو کیا آیا اَلَکُمُ الذَّکَرُ وَلَہُ الۡأُنۡثیٰ تِلۡکَ إذًا قِسۡمَۃٌ ضِیۡزَیٰ۔[(سورہ النجم 21۔22) ”(ظالمو) تمہارے لئے بیٹے اور اللہ کےلئے بیٹیاں! (خدا کے ساتھ) بٹوارہ اور(وہ بھی) ظالمانہ!“]
ہمیں اگرچہ ’اصل‘ جمہوریت کی بھی احتیاج نہیں تھی مگر جمہوریت کے نام پر  ہمیں جو ملا وہ تو نرا جھانسہ تھا۔ یہ خوامخواہ اور مفت میں ہم پر احسان ہوا۔اس میں اور آئی ایم ایف کے ’رحمدلانہ‘ قرضے میں کوئی جوہری فرق نہیں۔ دونوں ہماری اپنی ہی جہالت اور پسماندگی کا شاخسانہ ہیں اور عشروں سے چلی آنے والی ایک غلا م ذہنیت کی دین ۔ ہمارے دین نے تو ’’ولاءاور براء‘‘ [یعنی کفر واہل کفر سے بیزاری] کا عقیدہ دےکر ہمارے فکری اور سماجی استحصال کے تمام راستے  بند کردیے تھے ۔ مگر کوئی اپنی ہی پسماندگی اور جہالت سے مار کھانے پر اصرار کرے تو اس کا کیا حل ہے؟
یہ جمہوریت لے کرہم بھی خوش اور مغرب بھی خوش ! اب کیا مسئلہ باقی ہے!؟
قران سے واقعہ شناسی کا سبق پڑھنے والی قوم کا کسی سے پیچھے رہ جانا یا کسی کے داؤ میں آجانا کبھی ممکن نہ تھا ۔ مگر ہم نے اپنی قوم کو قرآن پڑھانے پر محنت ہی کتنی کی ہے۔ ایسی حالت میں متاع کارواں کے لٹ جانے پر خوشی کے شادیانے بجیں اور آزادی کے نغمے گائے جائیں تو اس پر خون کے آنسو روئیے مگر تعجب نہ کیجئے۔
*****
تاکہ ہمیں اپنی اوقات یاد رہے!
مغرب کو اپنی اصل جمہوریت میں ہمارے ساتھ حصہ بٹانا گوارا نہ تھا تو پھر تیسری دنیا اور بطور خاص ہمارے مسلم ملکوں میں اس نے جمہوریت کا یہ چکر چلایا ہی کیوں؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ مغرب اگر ایسا نہ کرتا تو آپ سے آپ ہم خود شناسی کی طرف بڑھتے۔ ہمیں اپنے اسلاف کا ورثہ کھنگالنے کی ضرورت محسوس ہوتی۔ فکری خود انحصاری اور نظریاتی خود کفالت کی جانب ہمارا راستہ خود بخود صاف ہونے لگتا اور یوں مغرب کی یہ فکری اور ثقافتی برتری خطرے میں پڑجاتی۔ مغرب ہمیں اپنی یہ اترن نہ پہناتا اور ’جمہوریت‘ کے اس چکر میں نہ ڈالتا تو ہم اپنی سوچ اور فکر میں آزاد ہوجاتے۔ عالم اسلام میں اپنے اصل ورثہ کی تلاش شروع ہوجانا اور اس امت میں فکری خود اعتمادی کی لہر دوڑ جانا کیا مغرب کےلیے کوئی چھوٹا خطرہ ہے؟ یہ تو اس کےلیے سوہانِ روح ہے۔ ہمارے بچے جوتے کا ایک تسمہ تک خدا سے مانگنے کے سبق پڑھنے لگیں اور دین و دنیا کے ہر مسئلے میں ہدایت کی تلاش مغربی صحیفوں کی بجائے صرف قرآن میں اور اپنے نبیؐ کے ہاں جاکر  کرنے لگیں، مغرب کی تو اس سے نیندیں حرام ہوسکتی ہیں ۔ وہ اپنی مصنوعات پھر کسے بیچے گا!؟؟
مگر اس مقصد کےلئے مغرب ہمیں اپنی اصل جمہوریت کی شکل دکھانے کےلئے بھی تیار ہوجائےگا؟ یہ ہماری خام خیالی ہے۔ جو روٹی وہ اپنے بچوں کےلئے پکائے اس میں ہمیں بھی شریک کرے، اسے ثواب تو نہیں کمانا! ہمارا آپ اپنے پیروں پر کھڑے ہوجانا بھی اسے گوارا نہیں یہ اس کےلئے ایک بھیانک خواب ہے، مگر ہم بھی اسی دسترخوان سے حظ اٹھائیں جس پرو ہ خود تشریف رکھتا ہے ۔ یہ بھی وہ کیسے ہونے دے۔ اور پھر ہماری بسر اوقات جب بچےکھچے پر ہوجاتی ہے تو وہ اس پر کیوں پریشان ہوتا رہے؟ یہ پریشانی تو خود ہمیں نہیں!!!


[1]  محض ’آئینی تقاضے‘ اگرچہ ہمارے نزدیک کوئی بڑا معنیٰ نہیں رکھتے (جب تک کہ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہ ’’دین پورے کا پورا اللہ کیلئے نہ ہوجائے‘‘)... پھر بھی یہ بات خلافِ واقعہ ہے کہ پاکستانی آئین نے اسلام کے سب تقاضے پورے کررکھے ہیں اور مسئلہ محض بدعملی کا ہے۔ خود اِس نظام کو سراہنے والے حضرات تسلیم کرتے ہیں کہ آئین نے ایسے بہت سے سقم چھوڑ رکھے ہیں جو اِس مسئلے کو پیچیدہ اور غیرموثر کردیں۔  اس کیلئے ’بھلے وقتوں میں‘ آئینی ترامیم پر مشتمل شریعت بل بھی پیش کیا گیا تھا مگر یہ بیل منڈھے نہیں چڑھی؛ جوکہ اس بات کی دلیل ہے کہ خود اس نظام کے سراہنے والوں کے نزدیک اطاعتِ شریعت کے زبانی تقاضے تک یہاں پورے نہیں ہوئے!



Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی