جمہوریت کے اجزائے ترکیبی! حامد کمال الدین



جمہوریت کے اجزائے ترکیبی!



حامد کمال الدین


اسلام جمہوریت کو کن بنیادوں پر مسترد کرتا ہے، اس کااحاطہ اس مختصر مضمون میں مشکل ہے۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
1۔  اکثریت کی حکمرانی۔ }جوکہ قانون پاس کرنے میں ہی نہیں بلکہ قدم قدم پر سامنے آتی ہے۔ ایک قانونی مسودے کے ساتھ اکثریت کا کیا مفاد اور دلچسپی وابستہ ہے یا اکثریت کے مفاد پر اس سے کیا زد  پڑتی ہے  اس کا آپ سے آپ تعلق اس بات سے ہوجاتا ہے کہ اس مسودے کی تیاری اور اس کی زبان میں سقم چھوڑنے اور نہ چھوڑنے سے لے کر اس کو لٹکاتے چلےجانے یا بلاتاخیر سامنے لےآنے میں ایوان کی اکثریت آپ کو کیا کرکے دیتی ہے (اور ایوان کی اکثریت کے پیچھے عوام کی اکثریت جس کو ’شیپ‘ کرنے میں ساہوکاری کا پورا ایک نیٹ ورک کارفرما ہوتا ہے)۔ حتیٰ کہ یہ بھی فرض کرلیا جائے کہ ایک قانونی بل پاس ہوچکا، اب اُس کو چلانے یا سُلارکھنے میں اکثریت کیا کردار ادا کرتی ہے، کچھ دیگر قوانین کے ساتھ اس کا تعارض یا موافقت کروادینے میں اکثریت کے نظریات یا مفادات کیا رخ اختیار کرتے ہیں، پھر جب وہ ایک قانون کا نفاذ کرتی ہے تو اس دوران بھی وہ اُس قانون کی روح کو قائم رکھنے یا اسکا ستیاناس کردینے کے معاملے میں کیا ترجیحات رکھتی ہے، پھر وہ اُس قانون سے کیا نتائج برآمد کرتی ہے (کیونکہ وہ چاہے تو ایک قانون پر عملدرآمد کے دوران لوگوں میں اُس کےلیے نیک جذبات پیدا کراتی اور اس سے اعلیٰ ترین نتائج برآمد کراتی ہے اور اگر چاہے  تو لوگوں کے اُس سے بِدک اٹھنے اور اس سے بدترین نتائج نکال دکھانے کا انتظام کرتی ہے)۔



فرض کرلیں آپ نے ایک نظام کو وضع کرنے میں اکثریت کا اختیار ختم کردیا ہے اور اسکا کردار صرف اُس نظام کے چلانے تک محدود کردیا ہے (یہ سب  مفروضات کی بات ہو رہی ہے) تو اسکی مثال ہم ایسے لےلیتے ہیں کہ ایک طیارے کا پورا مینووَل (قانون) آپ نے تیار کرلیا ہے حتیٰ کہ اس میں کوئی ردوبدل بھی خارج ازاِمکان ٹھہرادیا ہے، لیکن طیارے کو چلانا اکثریت کا اختیار رکھا ہے۔ اب اس عمل کیلئے اکثریتی ہڑبونگ کسی وقت ایک ’کوچوان‘ کی صورت سامنے آتی ہے۔ یعنی ہے وہ طیارہ مگر اپنے چلائے جانے کیلئے ایک کوچوان کے سپرد ہوگا (’کوچوان‘ طیارہ بنانے کا مجاز بےشک نہیں مگر طیارہ چلانا اُسی کا حق ہے اور اُس کے سوا کسی کا نہیں)... تو پھر آپکا وہ طیارہ اور مینووَل ’کوچوان‘ کے ہاتھ آکر کیا اپنی بیچارگی پر ماتم نہ کرےگا؟ غرض ’اکثریت کی حکمرانی‘ اِس سسٹم میں ہزارہا پہلو رکھتی ہے؛ اس کا قانونی پہلو اس کی صرف ایک جہت ہے۔ آپ جانتے ہیں اس نظام میںاکثریت کو صرف قوانین ہی نہیں پالیساں بھی بنانی ہوتی ہیں۔ ’قوانین‘ کے معاملے میں فرض کریں آپ نے کوئی شق رکھ بھی دی، ’’پالیسیوں‘‘ کے معاملے میں آپ کیا کریں گے؟ (مثال کے طور پر بھارت کو ’فیورٹ کونٹری‘ قرار دینا، یا امریکہ کو اڈے فراہم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا۔ یہاں؛ ملٹی نیشنلز کی لائی ہوئی اکثریت کیا گل کھلاتی ہے اور اسکے اختیارات کی بابت آپکا دستور کیا کہتا ہے؟) دفاع سے لےکر تعلیم، ابلاغ اور معاش تک۔۔۔ بنیادی طور پر یہاں ’قوانین‘ نہیں بلکہ ’’پالیسیاں‘‘ چلتی ہیں۔ اِس پہلو سے ’جمہوریت کو اسلام سے ہم آہنگ کرلینے‘ کا موضوع شاید کبھی دیکھا تک نہ گیا ہو!  اِس ’اکثریت کی حکمرانی‘ کو جوکہ جمہوری عمل کی مرکزی ترین حقیقت ہے کسی ایک آدھ شق سے ’موافقِ اسلام‘ کرلینا محض فلسفوں اور مفروضوں کے اندر ممکن ہے، جبکہ جمہوریت کے دیگر اجزائے ترکیبی ابھی باقی ہیں:{
2۔  گروہ بندی اور پارٹی بازی۔
3۔ باہمی رقابت( اخوت اسلامی کا پار ہ پارہ ہونا)۔
4۔ عالم اور جاہل کی یکسانیت۔
5۔ رائے دہندگی میں نیک اور بد کی عدم تمیز اور فاسقوں فاجروں کے اقتدارتک پہنچنے کےلیے راہیں کھلی کرنا۔
6۔ مر د اور عورت کا یکسا ں حق رائے دہندگی و حق حکمرانی۔
7۔ دولت اور سیاہ دھن کے غلط استعمال کا بار بار امکان( یورپی ملک تک اس سے محفوظ نہیں)۔ جمہوریت کی اعلیٰ ترین مثال امریکہ سے پیش کی جاتی ہے۔ وہاں کی صدارتی مہم کےلیے ’پیسہ‘ لانے والے عوامل پر ایک نظر غور کرلیں؛ آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ کیسا مہنگا اور پیچیدہ کھیل ہے اور اس میں کس کس انداز کے کھلاڑی حصہ ڈالتے ہیں!
8۔ جہالت زدہ اور پسماندہ طبقوں کااستحصال۔ (بلکہ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ معاشرے میں مراعات یافتہ طبقوں کےلیے یہ عمل کیسے کیسے امکانات لےکر آتا ہے اور بھولے سادہ طبقے یہاں کیسے مارے جاتے ہیں)
9۔ میڈ یا جیسی اندھی قوت کاشیطانی استعمال (یعنی عوام الناس کو بے وقوف بنانے کے فن کا استعمال۔ بہت سے پانسے یہاں سے ہی پلٹے جاتے ہیں اور یہاں مار کھانے والا پھر مار ہی کھاتا چلا جاتا ہے)۔
10۔ برادری اور طبقاتی تعصب کو ہو ا دی جانا۔
11۔ انسانوں کو قانون سازی کا حق ہونا۔
12۔ دین اور دنیا کی تقسیم(یعنی سیکولرازم، جس کے بغیر جمہوریت آج تک کہیں چل ہی نہیں سکی)۔
13۔ مغربی قوموں کی مشابہت اور ان کی پیروی کے کلچر کو فروغ۔ اصطلاحات terminology   سے لےکر معیارات standards اور مثالوں examples اور نظائر precedents  تک... حوالے ہی وہاں کے چلتے ہیں (چیز ہی جب وہاں کی ہے!)
14۔ اسلامی شعائر(مانند شوری و بیعت) کا مسخ کیا جانا۔
15۔ عقیدہ قومیت پر ایمان لازم آنا( جمہوری عقیدے کا ایک بنیادی عنصر ’زمین‘ ہے جو کہ ’دارالاسلام ‘ کے تصور سے براہ راست متصادم ہے ۔ جمہوریت کا ’نظریہ زمین‘ دھرتی کو قیامت تک کےلئے قوموں میں بانٹ کر فارغ ہوجاتا ہے۔ انسانوں کو قوموں میں تقسیم کرتا ہے۔ جمہوریت کی رو سے کسی خاص قوم کا کسی خاص خطہ زمین پر ہمیشہ ہمیشہ کےلئے حکمران رہنے کا حق آپ اصولاً ماننے پر مجبور ہوتے ہیں اور ہر قسم کی بیرونی اثر اندازی کو اس کے داخلی امور میں مداخلت تسلیم کرنے پر اصولاً پابند ہوجاتے ہیں)۔
16۔عقیدہ قومیت کو قبول کرلینے سے عقیدہ جہاد کا واضح طور پر انکار اور تعطل لازم آنا۔
17۔ مسلم اور غیر مسلم دونوں کو ایک قوم، ایک وحدت اور ایک برادری ماننا اور ان میں اتحاد ، یکجہتی اور یگانگت کی ضرورت کو تسلیم کرنا جس سے عقیدہ ولا و براء [یعنی کفار سے بیزاری اور صرف اہل ایمان سے وابستگی] کا انکا ر لازم آتا ہے۔
18۔ وطنیت (وطن سے وفاداری اور وطن پر جان دینے کا عقیدہ)۔
19۔ سرحدو ں پر ایمان۔
20۔ ’عالمی برادری‘ اور ’ملتِ اقوام‘ کا حصہ ہونے کا تصور۔
اب آپ اگر جمہوریت کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے چلے ہیں تو ذرا اس فہرست پر نگا ہ ڈال لیجئے۔ جمہوریت کے ان بنیادی اجزاءکو ایک نظر دیکھئے اور پھر کہئے کہ اسلام میں داخل کرنے کےلئے آپ جمہوریت کاآخر کیا کیا نکالیں گے؟
کہیں ایسا تو نہیں ہمارے مسلم معاشروں میں جمہوریت کو اسلام سےہم آہنگ کرتے کرتے اسلام کو ہی جمہوریت سے ہم آہنگ کرد یا گیا ہو؟ایسا تو نہیں کہ ہمیں کفار سے کچھ لیتے لیتے الٹا بہت کچھ دینا پڑ گیا ہو؟
یہود کے ساتھ معاملہ  کرنا کسے مہنگا نہیں پڑا!!!

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی