اسلامی جمہوریت‘ کا فلسفہ! حامد کمال الدین



اسلامی جمہوریت‘ کا فلسفہ!

حامد کمال الدین

 

پچھلی نصف صدی سے ہمیں ’جمہوریت‘ کے کولہو میں جوت رکھنے والے حضرات یہاں ایک نکتہ لےکر آتے ہیں:
’صاحب اپنے یہاں جو جمہوریت پائی جاتی ہے آپ خوامخواہ اسے مغربی جمہوریت سمجھ بیٹھے، حالانکہ یہ تو اسلامی جمہوریت ہے‘!
’ڈیموکریسی‘ ایک عالمی حوالہ ہے۔ اِس کا ایک معروف تاریخی پس منظر ہے۔ نظریات کی دنیا میں یہ لفظ کچھ مخصوص معانی اور مفہومات ادا کرنے کےلیے وضع ہوا ہے۔ دنیا کے کسی فورم پر جب آپ ’ڈیموکریسی‘ بول کر آتے ہیں تو جہان بھر کے صحافی، دانشور، نقاد، ادیب،  مفکرین اِس سے ایک مخصوص مطلب ہی لیتے ہیں۔ اِس میں ذرہ بھر شک نہیں  کہ سیاسیات کے باب میں ’ڈیموکریسی‘ عین اُسی طرح ایک (باقاعدہ) نظریہ اور نظام ہے  جس طرح معاشیات کے باب میں ’سوشلزم‘ یا ’کیپٹل ازم‘۔ ایسے کسی بھی ’ازم‘ یا ’کریسی‘ کے ساتھ ’اسلامی‘ کا جوڑ لگانا درحقیقت مضحکہ خیز ہے۔ اس کی ایک نہایت سادہ وجہ ہے جو ہم آپ کی خدمت میں عرض کردیتے ہیں:

دنیا کے یہ جتنے ’ازم‘ اور ’کریسیاں‘ ہیں... ان کا اصل مدمقابل روئے زمین پر اگر کوئی تھا اور ہے تو وہ ’’اسلام‘‘ ہی ہے۔ انسانی زندگی کو چلانے کا دعویٰ لےکر اٹھنے والا ایک نظریہ اور نظام ہونے کے ناطے ’ڈیموکریسی‘ اور ’سوشل ازم‘ اور ’کیپٹل ازم‘ وغیرہ کی جنگ دنیا میں کسی سے تھی تو وہ اسلام سے تھی۔ یہی جنگ جوکہ عالمی منظرنامے پر اسلام کو ایک طویل عرصے سے درپیش ہے آج اپنی انتہا کو جاپہنچی اور چیخ چیخ کر صلائے عام دینے  لگی ہے، مگر ہم ہیں کہ شاید اس کو توجہ دینے پر تیار نہیں۔ اس میں ذرہ بھر مبالغہ نہیں، تاریخ کے ’مذہبی‘ ادوار[1] میں اسلام کو جس قدر پالا ’عیسائیت‘ اور ’یہودیت‘ اور ’ہندومت‘ سے تھا آج کے اِن ’غیرمذہبی‘ ادوار[2] میں اسلام کو اُسی قدر پالا ’سوشل ازم‘ اور ’کیپٹل ازم‘ اور ’ڈیموکریسی‘ سے ہے۔ اسلام وہ واحد دین ہے جو (معروف معنوں میں)[3] انسانی زندگی کے ’مذہبی‘ جوانب پر بھی پورا اترتا ہے اور ’غیرمذہبی‘ جوانب پر بھی۔ اس لیے اسلام کا تقابل جس قدر عیسائیت اور یہودیت اور ہندومت ایسے ’مذہبی‘ ادیان سے ہے اُسی قدر اسلام کا تقابل سوشل ازم، کیپٹل ازم اور ڈیموکریسی ایسے ’سماجی‘ ادیان سے ہے۔اس پر آپ کو تعجب ہوتا ہے تو وہ صرف اِس وجہ سے کہ اسلام کو آپ ’مذہب‘ کے خانے میں رکھنے کے عادی ہیں اور ’’دین‘‘ کے طور پر لینا بڑی دیر سے ترک فرماچکے ہیں۔ورنہ جس قدر بامعنی آپ کی نظر میں ’’اسلام بہ مقابلہ عیسائیت‘‘ یا ’’اسلام بہ مقابلہ مجوسیت‘‘ یا ’’اسلام بہ مقابلہ ہندومت‘‘ ہوسکتا تھا اُسی قدر بامعنیٰ ’’اسلام بہ مقابلہ سوشل ازم‘‘ اور ’’اسلام بہ مقابلہ کیپٹل ازم‘‘ اور ’’اسلام بہ مقابلہ ڈیموکریسی‘‘ ہونا چاہئے تھا۔’’دین‘‘ کا یہ تصور آپ پر واضح ہوتا تو یقیناً آپ مانتے کہ اسلام کی مڈھ بھیڑ آج ہے ہی ’’اشتراکیت‘‘ اور ’’سرمایہ داری‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ وغیرہ ایسے (ماڈرن) ادیان کے ساتھ۔ تب ’’اسلام اور اشتراکیت‘‘ یا ’’اسلام اور جمہوریت‘‘ کے مابین مشترک نکات نکال نکال کر دکھانے کی بجائے آپ اِن کی اِس جنگ میں فریق بننے کےلیے بےچین ہوتے؛ کہ دورِحاضر میں حق وباطل کا سب سے بڑا معرکہ یہی تھا۔ تب جتنا تعجب آپ کو ’اشتراکی سرمایہ دار‘ یا ’سرمایہ پرست اشتراکی‘ یا مودودی صاحبؒ کے الفاظ میں ’گوشت خور ویجی ٹیرئن‘ ایسی ایک بیہودہ ترکیب سن کر ہوتا اتنی ہی حیرت آپ ’اسلامی جمہوریت‘ ایسی انہونی ترکیب پر ظاہر فرماتے۔ اس صورت میں یہ اشکال بھی ہرگز آپ کے ہاں جگہ نہ پاتا کہ صاحب ’’اسلام اور اشتراکیت کے مابین‘‘ یا ’’اسلام اور جمہوریت کے مابین‘‘ بہت سی جگہوں پر مماثلت بھی تو آخر پائی جاتی ہے! بعینہٖ جس طرح اِس اشکال کی آپ کے ہاں کوئی گنجائش نہیں کہ ’’اسلام اور عیسائیت کے مابین‘‘ یا ’’اسلام اور یہودیت کے مابین‘‘ بہت سے مقامات پر مماثلت پائی جاتی ہے، بہت سے معاملات میں ’’اسلام اور عیسائیت‘‘ کا یا ’’اسلام اور یہودیت‘‘ کا موقف ہوبہو ایک ہے؛ لہٰذا ’عیسائی اسلام‘ یا ’اسلامی عیسائیت‘ یا ’اسلامی یہودیت‘ ایسی کوئی ترکیب بھی دنیا کے اندر نکال لائی جائے! صاف سی بات ہے ہر باطل نظریہ، نظام یا مذہب ایک کُل کا نام ہے اور ان میں سے ہر ایک کا کچھ نہ کچھ اشتراک اسلام کے ساتھ لازماً ہوگا۔ امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: دنیا کا کوئی باطل ایسا ہے ہی نہیں جس میں کچھ نہ کچھ حق نہ پایا جاتا ہو کیونکہ حق تعالیٰ نے جس سلیم فطرت پر انسان کی تخلیق فرمائی ہے وہ کسی باطلِ محض پر فریفتہ ہونا جانتی ہی نہیں؛ اس کو رجھانے کےلیے لازم ہے کہ آپ حق ہی کی کوئی بات لےکر آئیں اور پھر اس کے ساتھ باطل کا پورا ایک تانا بُن دیں۔ پس اِس معنیٰ میں انسانی فطرت حق پرست ہے؛ لہٰذا حق کی ایک گونہ آمیزش ہر باطل نظریہ، نظام اور مذہب کی مجبوری۔ چنانچہ جہاں تک اتباع کرنے کا تعلق ہے تو اس کےلیے آپ کو مطلق حق درکار ہے؛ اور جوکہ آج کے دور میں صرف شرعِ محمدؐ سے دستیاب ہے۔ البتہ رد کرنے کےلیے ایک چیز کا مطلق باطل ہونا ضروری نہیں؛ ایک نظریے یا نظام یا مذہب میں اگر کچھ بھی باطل ہے تو وہ رد ہوگا؛ اور وہاں اس کے ’اسلام کے ساتھ مشترک نکات‘ کا اعتبار کرکے اسلام اور اُس  کے مابین بیچ کی راہ نہیں نکالی جائے گی۔ یوں ایک مذہب کے ’جزوی‘ طور پر حق ہونے کے باوجود اور یوں اسلام کے ساتھ اُس کے ’جزوی اشتراک‘ رکھنے کے علی الرغم، اسلام اور اُس کا تصادم ہی پیش نظر رکھا جائےگا نہ کہ اسلام کے ساتھ اُس کی مماثلت۔ پس بےلحاظ اس سے کہ ایک مذہب، ایک نظریے یا ایک نظام میں کتنے فیصد حق ہے اور کتنے فیصد باطل... وہ ایک اکائی کے طور پر ہی لیا جائے گا؛ اور جب اسلام کے ساتھ کسی ایک بھی پہلو سے اُس کا تصادم ثابت ہوجائے تو وہ پورے کا پورا رد ہوجائے گا۔ یہ اصول اگر ختم ہوجاتا ہے تو دنیا میں کوئی نظریہ، نظام یا مذہب ایسا نہیں رہ جاتا جس کو رد کرایا جائے ۔ تب ہر چیز اجزاء میں تقسیم ہوگی اور ایک نظریہ، نظام یا مذہب کلیتاً رد ہونے کی بجائے محض اُس کا سپیئرپارٹ بدلا جائے گا؛ جس کے بعد وہ باطل نظریہ، نظام یا مذہب نہ صرف قبول ہوگا بلکہ جہان میں ہم اُس کے داعی اور علمبردار بن کر اٹھیں گے!
*****
یہ ہوئی اِس مسئلہ کی اصولی بنیاد۔ بنابریں، ڈیموکریسی کو ’مغربی‘ اور ’اسلامی‘ میں تقسیم کرنے کا فلسفہ بنیاد سے غلط ہے۔
’اسلامی‘ جمہوریت کو مفروضوں اور خوابوں کے اندر تلاش کرنا بھی یوں تو غلط ہے، اور اس کی وجہ ہم اوپر بیان کرآئے،  لیکن کوئی اگر آپ کو یہ مژدہ سنائے  کہ’اسلامی جمہوریت‘ نامی کوئی چیز بالفعل دنیا میں پائی جانے لگی ہے تو یہ بات کسی لطیفے کے طور پر ہی سننی چاہئے۔ پھر اگر وہ یہ بھی انکشاف کرے کہ جمہوریت کی یہ ’اسلامی‘ قسم ہمارے اپنے ہی ملک میں دریافت کرلی گئی ہے تو اسے لطیفے کی کوئی آخری قسم کہنا چاہیے! اِس کا کچھ بیان ہم آئندہ فصول میں کریں گے۔



[1]  تاریخ کے ’مذہبی‘ ادوار سے مراد: جب معاشرے دنیا میں اپنی پہچان ’عیسائی‘، ’یہودی‘، ’ہندو‘ معاشرہ اور ’’مسلم معاشرہ‘‘ کے طور پر کراتے تھے۔
[2]  حالیہ ’غیرمذہبی ادوار‘ سے مراد: جب معاشرے اپنی پہچان ’اشتراکی‘، ’سرمایہ داری‘، ’جمہوری‘ معاشرے کے طور پر کراتے ہیں، ان کے مقابلے پر آج بھی ہمیں اپنی پہچان ’’مسلم معاشرہ‘‘ کے طور پر کرانی تھی (کیونکہ ہماری یہی واحد پہچان قیامت تک کےلیے ہے هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ)، مگر نہ کراسکے، تب نہ آسمان سے نصرت آئی اور نہ زمین سے فراوانی ملی، سوائے ذلت، خوف اور بھوک کے جس کی کوئی حد تھی نہ حساب۔ زمینی نظریوں اور نظاموں کے مقابلے پر آپ اپنی خالص آسمانی پہچان ہی نہ کراپائیں تو خدا سے کس چیز کی امید رکھیں گے؟!
[3]  اردو میں ’مذہب‘ کا لفظ آج عین وہ معنیٰ ادا کرتا ہے جو انگریزی میں ’ریلیجئن‘ یا ہندی میں ’دھرم‘ کا لفظ۔ یعنی کچھ غیبی (metaphysical) عقائد، کچھ شعائرِعبادت (rituals)، نیز غمی خوشی اور کھانے پینے وغیرہ کے چند کوڈز اور کچھ گنے چنے تہوار۔ ’مذہب‘ کا دائرہ ہی جب یہ ہے؛ لہٰذا انسانی زندگی کے جوانب مانند سیاسیات، معاشیات، تعلیم، ثقافت، جہانبانی، صلح وجنگ، ڈپلومیسی وغیرہ کو ’غیرمذہبی‘ خانوں میں رکھ کر دیکھا جاتا ہے۔ البتہ ’’دین‘‘ آپ جس چیز کو کہتے ہیں اُس میں انسانی زندگی کے یہ سب جوانب آتے ہیں۔ یعنی ’’دین‘‘ آج کے معروف معنوں میں ’مذہبی‘ معاملات کو بھی شامل ہے اور ’غیرمذہبی‘ معاملات کو بھی۔ تاریخ کی اِن آخری صدیوں میں یورپی معاشرے اور پھر ان کی دیکھادیکھی دنیا کے تقریباً سبھی معاشرے ’مذہب‘ کی سیادت کا انکار کرتے ہوئے اپنے آپ کو ’غیرمذہبی‘ معاشرے ڈیکلیئر کرچکے ہیں اور ’’دین‘‘ کے غیرمذہبی جوانب کو ہی اپنی مرکزیت کی بنیاد اور اپنی اجتماعی شناخت قرار دے چکے ہیں۔ چنانچہ عیسائیت، مجوسیت، ہندومت وغیرہ آج ’’فرد‘‘ کا دین ہیں البتہ ڈیموکریسی، ہیومن ازم، سوشل ازم اور کیپٹل ازم وغیرہ ’’معاشرے‘‘ کا دین ہیں۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی