جمہوریت کا لوکل برانڈ! حامد کمال الدین



جمہوریت کا لوکل برانڈ!

حامد کمال الدین

کہنے کو لوگ اسے اسلامی جمہوریت کہتے ہیں...
طرفہ یہ کہ خود جمہوریت کے ماننے والے اسے جمہوریت ماننے پر تیار نہیں اور خالص اسلام کو پہچاننے والے اسے اسلام کہنے پر آمادہ نہیں!
بعید نہیں یہ کوئی تیسری چیز ہویعنی اسلام اور نہ جمہوریت ۔ مگر بطور مسلمان ہمیں اس سے غرض نہیں کہ یہ کوئی تیسری چیز ہے یا چوتھی یا بیسویں۔ بطورِ مسلمان ہمیں ایک ہی بات سے غرض ہوسکتی ہے اور وہ یہ کہ آیا یہ اسلام ہے؟ اِس ایک سوال کا جواب اگر اثبات میں نہیں تو پھر اِس مخلوق کی جنس یا ماہیت جاننے پر سر کھپانا ہماری ضرورت نہیں۔ یہ جمہوریت ہے تو، اور اگر جمہوریت کا مذاق ہے تو، ہمیں اِس سے سروکار نہیں۔ یہ جمہوریت ہے یا جمہوریت کے نام پر بھی کوئی واردات؟ اِس پر پریشان ہونا جمہوریت کے پرستاروں کاکام ہے نہ کہ ہم اسلام سیکھنے اور سکھانے والوں کا۔
اصولاً اس موضوع پر اتنی بات کہہ دینا کافی ہے ۔ تاہم یہاں ایک خلطِ مبحث کا ازالہ کیے بغیر چارہ نہیں۔ یہ ہے جمہوریت کا ’غیرمغربی‘ روپ جسے ہمارے دانشور ’اسلامی جمہوریت‘ سے موسوم فرمانے لگے ہیں۔ زیرنظر رسالہ جمہوریت کی اُس نام نہاد ’اسلامی‘ شکل سے بحث کرتا ہے جو ہمارے ملکِ پاکستان میں رائج ہے اور جوکہ دورِحاضر کے ایک مقبول ترین عالمی فیشن، جس کا پیٹنٹ نیم ’ڈیموکریسی‘ ہے اور جوکہ اِسی نام سے دنیابھر میں جاناپہچانا جاتا ہے،  کو لوکل برانڈ کے ساتھ چلانے کی ایک کوشش ہے۔ اِس مضمون کی کچھ علمی جہتیں ہمارے دیگر رسائل و مضامین میں بیان ہوں گی۔ یہاں یہ واضح کرنے کی کوشش ہوئی ہے کہ وقت کے اِس مقبول ترین فیشن  -  ڈیموکریسی –  کا یہ ایک نہایت گھٹیا برانڈ ہے جس پر ’اسلامی‘ کا لیبل لگاکر آج ہمارے سطح بینوں کو اس پر فدا ہونےکی راہ دکھائی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ اِس پر ’اسلامی‘ لکھا دیکھ کر کئی ایک طبقے اِسے رد کرنے میں ایمان کا خطرہ محسوس کررہے ہیں!
زیرِنظر رسالہ ’’ڈیموکریسی‘‘ کے اِسی لوکل برانڈ سے بحث کرتا ہے۔ نیز اس آفت کے ہاتھوں ہمارے دین اور دنیا کا جو اجاڑا ہوا اور ہماری نسلوں کی جو ویرانی ہوئی، یہاں اس کی ایک ہلکی سی تصویر پیش کرنے کی کوشش ہوئی ہے... اور اس کو خیرباد کہہ دینے اور دینِ خداوندی کو سنجیدہ حقیقت کے طور پر لینے کی ایک دعوت۔
ادنیٰ غور سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام ایسی برگزیدہ حقیقت کو اِس نظامِ فاسد سے جو آپ کے ہاں رائج ہے دور نزدیک کا واسطہ نہیں؛ خواہ وہ نظریاتی حوالوں سے ہو یا عملی حوالوں سے۔ یہ مغربی ہے یا مغربی کا کوئی ناکام چربہ ہے، اس پر جس قدر چاہیں بات کرلیں، مگر یہ اسلام بہرحال نہیں۔ یہ کنڈم مال جو ہم پر لاد رکھا گیا اور جس کی باربرداری کےلیے قریباً سات عشروں سے اِس قوم کو برتا اور ہانکا جارہا ہے؛ اور جس کا بوجھ اِس کی کمر دہری کرچکا یہاں تک کہ اِس کی ہمت جواب دےجانے کو ہے...  یہ مشقت یوں تو اِس عظیم مسلمان قوم کے ساتھ بھی زیادتی ہے اور اِس کے استحصال کی ایک بےرحم ترین صورت... تاہم اسلام کے ساتھ تو یہ  ایک نہایت گھناؤنی واردات ہے۔
یہ لنڈے کا مال جو کبھی ہماری پہچان نہیں رہا، ہماری اِس مجبور مقہور قوم کے تن پر صاف پہچانا جاتا ہے۔ غلاموں کا ایک بدنما یونیفارم جس کا ریشہ ریشہ بوئے کفن سے لبریز ہے! اس پر ’اسلامی‘ بیل بوٹے بنانے کی جتنی کوشش ہورہی ہے وہ صرف اِس کی بدنمائی میں اضافہ کرتی ہے۔
حضرات وخواتین!
آئیے اپنی قوم کو خودشناسی اور خودانحصاری کی راہ پر لےکر چلیں۔ اپنے عقیدۂ صافی سے اِس کو وہ آب حیات لےکر دیں  جس کی تاثیر سےیہ نہ صرف مغضوب علیہم اور ضالین کی اقتداء سے نکل آتی ہے بلکہ ’’قوموں کی امامت‘‘ کرتی ہے۔ آسمانی شریعت کے وہ سچےکھرے  اسباق اِس کو پھر سے ازبر کرائیں  جنہیں پڑھ کر مسلمان کسی انسان ساختہ نظام کے حوالوں کا خوشہ چیں نہیں رہتا۔
اپنے نظریاتی وجود کی پہچان کرنے اور کرانے کےلیے، یہاں مانگے تانگے کی اصطلاحات پر گزر اَوقات کرنے کی بجائے... آئیے ملت کا وہ دستور بحال کروائیں جس کی ٹکسال اپنے سکے آپ جاری کرتی ہے۔
إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ  وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّـهِ  عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی