دینی جماعتوں سے ایک پُر خلوص‌ التجاء از طارق اقبال سوہدروی



دینی جماعتوں سے ایک پُر خلوص‌ التجاء
طارق اقبال سوہدروی
برادران اسلام : اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
یاد رکھیں‌انقلاب لانے کا کوئی آسان طریقہ یا شارٹ‌کٹ نہیں‌ہوتا اور بغیر قربانی کے کوئی انقلاب نہیں‌آتا ، جمہوری طریقے کو آسان سمجھتے ہوئے اسلام کے نفاذ کی اُمید رکھنے والے احباب نادان ہیں ، آسان راستہ تو تب کہیں‌کہ یہ ہمیں‌ہماری منزل تک پہنچا دے ۔ جو طریقہ منزل تک لےہی نہ جا سکے اسے راستہ کہنا ہی زیادتی ہے۔



برائے مہربانی زمینی حقائق کو دیکھیے، قرار دادمقاصد کی حقیقت کو سمجھیے، ضد نہ کیجئے ، اپنے دلائل کو حرف آخر نہ سمجھیے، ہمارے مؤقف کو سمجھنے کی بھی سنجیدہ کوشش کیجئے ، دوسروں کو داعش اور طالبان قراد دینے سے پہلے ہماری احتجاجی جدوجہد کے پُرامن طریقے کو بھی سمجھیے ، فکر ونظر کی آنکھوں‌سے دیکھیے ، اس پر بھی غور کیجئے کہ کیا سیکولراور لبرل جماعتوں سے سیٹ ایڈجسمنٹ‌کے ذریعے اسلامی انقلاب آ سکتا ہے ؟ یقین جانیے اگر بھروسہ ہوتا تو ہم 100 سال مزید بھی انتظار کر لیتے۔ کیا ان بے دین جماعتوں‌سے سیٹیں‌مانگنے کی بجائے یہ زیادہ آسان نہیں‌ہے کہ تمام دینی جماعتوں‌کو رضائے الہی کے لیے متحد کرنے کی تحریک چلائی جائے اور پھر سب مل بیٹھ کر متفقہ لائحہ عمل کے ذریعے اسلام کے نفاذ کے لیے ایک پُرامن اور پُراثر تحریک چلائیں‌۔ ماضی پر نظر دوڑائیے ، عوام نے کبھی بھی علماء‌کو مایوس نہیں‌کیا ۔۔ ہاں‌مایوس کیا ہے تو علماء‌نے!! ۔۔افسوس کہ آج تک  اگر تحریکیں چلی ہیں تو جمہوریت کی بقا  کےلیے۔۔ ایسا نہ ہو سکا کہ سب دینی جماعتیں اکھٹی ہو کر صرف اسلام کے نفاذ کے لیے تحریک چلاتیں۔

خداراہ امریکہ ،بھارت اور اسرائیل کو گالیاں دینے سے پہلے اپنے اپنےگریبان میں‌بھی جھانکیے ۔۔ اگر ان کی سازشوں‌کی وجہ سے دینی جماعتیں اکھٹی نہیں‌ ہوتیں‌ تو پھر اگر آپ عقلمند ہیں‌تو ان کی اس سازش کو ناکام کیوں‌نہیں بناتے۔۔اگر ایسا ہی ہے تو پھر آپ ان کے ہاتھوں‌کا کھلونا کیوں‌بنے ہوئے ہیں‌؟۔۔متحد ہو کر ان کی سازش کو ناکام بنادیجئے ۔ اس کے لیے تو کسی حکومت سے اجازت لینے یا کسی آئینی ترمیم کی بھی ضرورت نہیں‌!!
بعض دوست پھر کہیں‌گے تحریک چلانے کی بجائے یہ بہتر ہے کہ سب دینی جماعتیں مل کر انتخابات میں‌حصہ لیں۔۔بظاہر بات معقول نظر آتی ہے مگر ذرا سوچیے کہ کیا آپ نظام بدلنا چاہتے ہیں‌یا موجودہ نظام میں کچھ تبدیلیاں‌کر نا چاہتے ہیں؟؟۔۔ذرا سمجھنے کی کوشش کیجئے ۔۔ جمہوریت ایک مکمل نظام ہے ، ایک ریاست کا مکمل ڈھانچہ ہے ۔ اس کھیل کا حصہ بننے کے لیے آپ کو اس نظام کے تمام قوائد وضوابط کو ماننا پڑے گا اور انہی کے تحت آپ آگے بڑھ سکتے ہیں وگرنہ نہیں‌۔۔ آپ کو اپنے کئی اصولوں‌کو قربان کرنا پڑے گا ، آپ کو ملکی اور غیر ملکی سمجھوتوں میں اپنے اپ کو جکڑنا ہو گا،ا گر آپ ان کو نہیں‌مانیں‌گے اور اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کریں گے تو پھرآپ کے مینڈیٹ‌کی پروا کئے بغیر آپ کی حکومت کا بستر بوریا گول کر دیا جائے گا۔۔ اس کے لیے آئین کا حوالہ ہی کافی ہو گا ۔۔ اور یہ وہی آئین ہو گا کہ جس میں قرآن وسنت کی بالادستی کو "تبرکا " لکھا ہوا ہے ۔۔اس لیے میرے نزدیک ایک مغربی لباس کو اسلامی لباس میں بدلنے کی بجائے یہ زیادہ بہتر ہو گا کہ آپ نیا کپڑا لے کر اپنی مرضی کا لباس تیار کریں ۔
جمہوری تماشے نے جتنا دینی جماعتوں کو نقصان پہنچایا ہے اتنا کسی اور مسئلے نے نہیں ۔ اس کی وجہ سے دینی جماعتوں میں اتحاد ناممکن ہے ۔ سب کو اپنی سیٹوں کی فکر ہے ۔اس کی وجہ سے جماعتیں تقسیم ہو چکی ہیں ، کوئی سینٹ کی ایک ہی نشست  لے کر شاداں وفرحاں رہتا ہے اور شاید ان کے نزدیک یہ اسلام کے قیام  کے قائم مقام ہو ۔ جبکہ خلافت دینی جماعتوں کو متحد کرتی ہے ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ مغرب اسلامی ممالک کے لیے بطور خاص جمہوریت پرہی کیوں زور دیتا ہے ۔اس کو آخر اس سے کیوں دلچسپی ہے ؟ وہ جمہوریت قائم کرنے لیے لاکھوں انسان کا قتل عام بھی کیونکر جائز سمجھتا ہے ؟ اس کے لیے فنڈنگ کرتا ہے۔ لبرل اور سیکولر ز کو سپورٹ کرتا ہے، کیا وہ ہمارے خیر خواہ ہیں ؟؟ نہیں ۔
نبی مہربان ﷺ نے تو فرمایا تھا کہ  علماء انبیا کے وارث ہیں ۔ مگر یہ کیسے وارث ہیں کہ کچھ نواز شریف کے ساتھ ہیں ۔ کچھ زرداری کے ساتھ اور کچھ عمران خان کے ساتھ ۔۔ یہ کیا ہورہا ہے؟ ۔۔ پہلے چھوٹی برائی کا سا تھ دے دے کر اس کو بڑی برائی بنا تے ہو اور آج اعلان کرتے ہو کہ ن لیگ کے علاوہ ہر جماعت سے سیٹ ایڈجسمنٹ ہو سکتی ہے ؟ آج کل پھر ان کے نزدیک عمران خان چھوٹی برائی ہے اورکل جب وہ بڑی بُرائی بن جائے گا تو پھر یہ کسی اور چھوٹی بُرائی کی تلاش میں نکل کھڑے ہونگے !!! کیا مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت کی سیاست سے اسلامی انقلاب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے کہ جن کی سیاست کا محور ہی  ہر حکومت کا اتحادی بننا ہو ؟؟ ۔۔کیا ایسے آسکتا ہے اسلامی انقلاب ؟؟
عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت جاہل اور اَن پڑھ ہے  جس کی وجہ سے وہ اچھےلوگوں کو منتخب  نہیں کرپاتے ۔۔ جبکہ میرے نزدیک اصل مسئلہ یہ نہیں ہے ۔۔ کیا علماء اکرام پڑھےلکھے نہیں ہوتے ؟۔۔ جب  قرآن وسنت  کے عالم،فاضل اور مناظر ہونے کا دعوٰ ی کرنے والوں کی حالت ایسی ہے کہ جیسے میں پہلے بیان کر چکا ہوں  تو سارا نزلہ عوام اور الیکشن کمیشن پرہی کیوں نکلتا ہے ؟؟ عوام تو اپنے علماء کی پیروی کرتے ہیں ۔۔ کیا وجہ ہے کہ  عوام اپنےزیادہ تر معاملات میں آج بھی علماء ہی  کی  مانتے  ہیں  مگر سیاست میں نہیں ؟؟سوچیے ۔ غوروفکر کیجئے  ؟؟اے اُمت محمد ﷺ کے علماء ۔۔ اے وارثان  انبیا ء علیہم السلام ۔۔ ذرا اپنا رتبہ اور مقام تو پہچانیے اور سوچیے کہ آپ کس راستے پر ہیں ؟؟ آپ کی منزل کیا تھی ؟؟ اور آپ عملی طور پر کیا کر رہے ہیں ؟؟آپ کا اتحادی کسے ہونا چاہیے تھا مگر آپ کر کیا رہے ہیں ؟؟کیا آپ کی تخلیق کردہ فقہی مصلحتیں ،، اللہ کی بارگاہ میں قبولیت  کا درجہ پالیں گئیں ؟؟ کیا ان چہروں کے ساتھ " ساقی کوثرﷺ" کا سامنہ کرنے کی ہمت و جسارت کرسکیں گے؟؟نبی کریم ﷺ نے ہرکام کے لیے مسجد کو استعمال فرماتے تھے ، یہ ہی ان کو پارلیمنٹ بھی تھی ، فیصلے بھی یہیں ہوتے تھے، بیرونی وفود سے ملاقاتیں بھی ہوتی تھیں  ۔ ۔مگر افسوس کہ آج علماء نے  مساجد کو تربیت  کی بجائے ایک دوسرے پر فتوے لگانے کے لیے وقف کر رکھا ہے ۔۔اگراس کا درست استعمال کیا جاتا تو آج مسلمان متحد ہوتے اور مہذب شہری ہوتے ۔  
اے میری محب وطن اور اسلام پسند عوام !۔۔ مجھے آپ سے بھی کچھ کہنا ہے ۔۔ خدارہ آپ بھی کسی لیڈ ر یا جماعت کے پیچھے آنکھیں بند کر کے مت چلیں ۔۔کسی جماعت کے نام سے دھوکہ نہ کھائیں بلکہ دوسروں کا بھی مؤقف سمجھنے  کی کوشش کریں۔۔ہر جماعت میں کچھ نہ کچھ اچھائیاں بھی آپ کو ملیں گیں ۔۔ ہرجماعت میں کچھ نہ کچھ بندے آپ کو اچھے بھی ملیں گے  ۔۔ مگر آپ کو دیکھنا یہ چاہیے  کہ کس جماعت کا راستہ و طریقہ ہمیں اسلامی نظام کے نفاذ تک لے کر جا سکتا ہے ۔۔ کون محض  وعدے،نعرے ا ور اخباری بیان دیتا ہے ۔۔ کون جمہوریت کی طرف بلاتا ہے اور کون خلافت کی  بات کرتاہے !!یہ مت سوچیے کہ آج مجھے اس جماعت میں تو 20، 40 یا 50 سال ہوگئے ہیں ۔ چھوڑوں تو کیسے ؟؟احباب ناراض ہو جائیں گے ، دوستیاں ختم ہو جائیں گیں ۔۔یاد رکھیے ۔۔ اللہ کو اس سے کوئی غرض نہیں ہےکہ آپ ساری عمر ایک ہی جماعت کے ساتھ وابستہ رہیں ۔۔صر ف ایک شرط ہےکہ آپ نے  حق کا ساتھ دینا ہے ، چاہے آپ کو مرنے سے  کچھ لمحےپہلے ہی  اس بات کا یقین ہو جائے کہ فلاں کی دعوت درست ہے ۔۔ لوگوں کی باتوں  اور طعنوں کی پرواہ مت کیجئے ۔

بعض دوست سب کچھ تسلیم کرنے کے باوجود اس بات پر کنفیوز ہوجاتے ہیں  کہ تحریک چلانے سے فوج سے تصادم ہو سکتا ہے ۔۔ گزارش ہے کہ فوج اور پولیس میں‌بھی ہمارے ہی بہن ، بھائی ہوتے ہیں‌، یہ کوئی مریخ سے آئی ہوئی مخلوق نہیں‌ہے ۔۔ جہاں ہم دوسرے افراد کی تربیت کریں تو ان کی بھی کریں۔۔میرے خیال میں یہ بہانہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کیا جاتا ہے ۔۔وگرنہ میرا خیال بالکل ایسا نہیں ہے کہ اگر تمام دینی جماعتیں مخلص ہو کر اور متحد ہو کر اس طرح‌تحریک چلائیں‌کہ عوام ان کی پشت پر ہوں تو کسی کی بھی جرات نہ ہو گی کہ وہ آپ پر گولیاں‌چلائے ۔۔اصل امتحان علماء‌کا ہے ۔۔کہ وہ اپنے آپ کو لیڈر ثابت کریں اور وعظ ونصیحت کےساتھ ساتھ  میدان میں بھی  آئیں اور جدوجہد کی مشقت اُٹھائیں۔
تاہم یہ بہت ضروری ہے کہ تحریک چلانے سے پہلے آپ اپنے پروگرام کا ہوم ورک مکمل کریں، عوام الناس کو علم ہونا چاہے کہ آپ کے پاس کیا پروگرام ہے اور آپ کا سیٹ اپ کیا ہے ؟ ۔ جب حکومت سے مذاکرات ہوں تو آپ کی تیاری مکمل ہونی چاہیے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھیے کہ اگر ہم کسی وجہ سے کامیاب نہیں‌بھی ہوتے تو پھر بھی ہمارا کام درست سمت میں کوشش کرنا ہی ہے ، حکومت کا حصول ہی ہماری کامیابی کا معیار نہیں ہے ۔  اگر دنیا میں ہم کامیاب نہیں بھی ہوتے تو نہ ہوں‌، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کامیابی ہماری کس نسل کی قسمت میں‌لکھی گئی ہے ،تاہم غیر اسلامی طریقے اختیار کر کے حکومت کا حصول ، اللہ تعالی کے ہاں‌مقبول نہ ہو گا اور نہ ہی اللہ کو مطلوب ہے ۔
اب اس تمام وضاحت کے بعد بھی جمہوری دینی جماعتیں اپنے انہی سوالوں‌پر بضد رہیں تو ان کی مرضی ۔۔ ہدایت دینا تو اللہ کا کام ہے ۔ میں‌اور میرے ہم خیال دوستوں کا کام تو صرف کوشش کرنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ‌سے دعا ہے کہ وہ میری ان معمولی کوششوں کو قبول فرمائے اور اگر میں نے وہی لکھا ہے جو اللہ کے ہاں‌درست ہےتو میری تحریر کو باقی بھائیوں‌اور دوستوں‌کے لیے بھی نافع بنا دے ۔۔ آمین ۔(طارق اقبال)

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی