کیا سیکولر جماعتوں کو فائدہ ، جمہوریت مخالف دعوت کی وجہ سے ہواہے ؟



کیا سیکولر جماعتوں  کو فائدہ ، جمہوریت مخالف دعوت کی  وجہ سے ہواہے ؟

سیکولرجماعتوں کوجمہوریت مخالف دعوت نے نہیں، بلکہ جمہوریت کوکفر اورظلم نہ کہنے نے فائدہ دیا ہے!
اس مضمون میں ‘‘فائدہ’’سے مراد حکومتی مناصب کاحصول ہے، نہ کہ عوام کوباہمی مفادات کے لالچ کے ذریعے اپنے اردگردجمع کرنا۔اسلامی جماعتوں کے ہاں ‘‘فائدہ’’ سے مراد ملک کے نظام اجتماعی کو اسلام کے مطابق ڈھالنے اور دین غالب کرنے کے ہدف میں کامیابی ہے ۔ اس کے برعکس سیکولرزکے لیے‘‘فائدہ’’ کامطلب ان کاپاکستان کولادینیت پرڈالنے کے مقصد کی جانب پیش قدمی ہے۔ اس تناظرمیں پاکستان کی تاریخ پرنظرڈالی جائے تو یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ سیاسی دینی جماعتوں کے جمہوریت کواسلامی کہنے،سیکولرحکومت چلانے والوں کے خلاف بطوردشمن کھڑاہونے کی بجائے اس کفریہ نظام کاحصہ بننے نے ہی یہاں کے سیکولرطبقوں کونقصان سے بچایاہے۔



یہاں کی عوام دین بیزاریادین دشمن نہیں،اسلام سے محبت کرنے والی اوراسلام ہی کویہاں غالب دیکھنے کے لیے انگریزسے آزادی لینے کی تحریک سے لیکرآج تک بے شمارقربانیوں کے سمندرپاٹنے والی عوام ہے۔ یہاں کی عوام کا دین سے نہ ٹوٹنے والارشتہ ہی توہے کہ ملک کی تاریخ میں کفرنافذکرنے والے کسی ایک بدترین دین دشمن حکمران نے بھی کبھی کھل کرلادینیت کی دعوت دینے کی جرأت اوراسلام کے نام کااستعمال ترک کرنے کی غلطی نہیں کی۔عوام کی دین کے ساتھ اس بے لوث محبت کے باعث اُن قائدین کے نظریات اورطرزِعمل کی اہمیت اوربڑھتی ہے جودین کی حاکمیت کی بات کرتے ہیں اورعوام غلبۂ اسلام کے لیے قدم بڑھانے سے پہلے ان کے قول وعمل کودیکھتے ہیں۔ اگریہ دینی جماعتیں قیامِ خلافت جیسی خالص ومقدس منزل کے حصول کے لیے عالم کفرسے برآمدشدہ جمہوری رستے کاچناؤ نہ کرتیں بلکہ جمہوریت سے کنارہ کش ہوکرباطل نظام کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتیں، دعوت اورامربالمعروف ونہی عن لمنکر کا فریضہ انجام دیتیں توآج پاکستان کی جہادی تحریک اس قدرکسمپرسی کاشکار ہوتی، نہ لادین قوتیں اتنی زورآور!!!یہ کہناکہ جمہوریت کی مخالفت کرنے سے سیکولرجماعتوں کوفائدہ ہوگاوہی خودفریبی پرمبنی استدلال ہےجوملاکنڈ ڈویژن میں اُس وقت کی سیاسی دینی جماعتوں نے اپنایاتھا،جب جہاداورنفاذشریعت کاعلم بلندکرنے والوں کوان کے سامنے قتل کیاگیا،انہیں بے گھرکیاگیا ،قیدخانے ان سے بھردئیےگئے۔ یہ سیاسی جماعتیں ان کی مدد کرنے سے شاید یہ سوچ کرپیچھے بیٹھی رہیں کہ تحریک نفاذِشریعت کو تقویت ملنے کافائدہ سیکولرجماعتوں کوہوگاکیونکہ ان کےووٹ بنک کواس تحریک سے متاثرہونے کاخدشہ تھا ۔


افراط وتفریط سے بچتے ہوئےعلمی پختگی کی ضرورت ہے !
آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات ہمیں مدنظررکھنی چاہیے کہ ہمیں افراط وتفریط سے بچنے کی اشدضرورت ہے۔ نہ تویہ دینی سیاسی جماعتیں جو الیکشن میں حصہ لیتی ہیں ہماری دشمن ہیں ،کہ ان کو کیانی اورزرداری کی صف میں کھڑاکرکےکافر قرار دے دیا جائے، اورنہ ہی انھیں اپنے قائدین کادرجہ دے کر،سرآنکھوں پربٹھاکر، حکومتی مناصب کے حصول میں معاونت دینی چاہیے۔ یہ واضح رہنا چاہیے کہ ہمارے اوراُن کے درمیان مشترک قدر اسلام اور اس کے غلبے کی خواہش و جد و جہد ہے۔ یہ بھی اسی خلافت کواپنی منزل گردانتے ہیں جس کے لیے ہم کوشاں ہیں۔ اس نسبت سے یہ ہمارے حلیف ہیں ، باوجود اس کے کہ انہوں نے اس کے لیے لادینیت پر مبنی راستہ اپنایا ہے۔اب اس عظیم قدرِ مشترک کی بنیاد پر ان کے جمہوریت میں شمولیت کے عمل پر نقد کو ان سے دشمنی برتنا نہیں سمجھناچاہیئے اورنہ ہمیں اس تنقیدمیں ایسی شدت لانی چاہیے کہ ایک مسلمان جماعت کے لیے لازم ’’ولاء(محبت، وفاداری، دوستی)‘‘ کے دینی تقاضوں کو بھول بیٹھیں۔ ان پرہماری تنقیدمیں نفرت نہیں بلکہ خیرخواہی اورہمدردی کے جذبات غالب رہنے چاہئیں!
دینی جماعتوں کے جمہوریت میں حصہ لینے سے دین کو کیا فائدہ ہوا؟
دیکھاجائےکہ پاکستان کی 66سالہ تاریخ میں دینی جماعتوں کے الیکشن میں شامل ہونے اور جمہوری نظام کی مخالفت کرنے کی بجائے اس کاحصہ بننے سے اہل دین کوکونسادینی فائدہ پہنچاہے ؟کونساشرعی حکم عملی طورپراس زمین پرنافذاورکونسامنکرروک دیاگیا؟یہاں چندقراردادوں کاتذکرہ ہوسکتاہے کہ دینی جماعتوں کی موجودگی کے باعث فلاں قرارداد کا پاس ہوناعمل میں آیا ،پرسوال یہ ہے کہ زبانی جمع خرچ کے علاوہ بھی ان قراردادوں کا شریعت کے نفاذ کی صورت میں کوئی فائدہ نکلا؟؟ ان قراردادوں کے ثمرے میں شریعت کاکوئی ایک حکم بتایاجائےجو عملی طورپرنافذہواہواورکسی ایک ظلم کی نشاندہی کی جائے کہ جس کاراستہ روکاگیاہو؟ یہاں آئین بنتے ،بگڑتے رہے ،قراردادیں بھی پاس ہوتی رہیں ،مگرمجال ہے کہ کسی ایک ایسے قانون اورایک ایسی قراردادپر اس ملک میں عمل کرنے دیاگیاہوکہ جس سے شریعت کے نفاذکی طرف تھوڑی سی عملی پیش قدمی بھی ہوئی ہویااسلام کوکوئی حقیقی فائدہ ملاہو۔ اس کے باوجودہماری سیاسی جماعتیں ان فضول قراردادوں اورآئینی اصلاحات کے اس لغو کھیل کو ہی اپنی سیاسی زندگی کے کارہائے نمایاں میں شمارکرتی ہیں ۔

دوسری جانب لادین طبقات کواس دورمیں کیاکامیابیاں نصیب ہوئیں اس کامشاہدہ ہر وہ شخص کر چکا ہے جوآج کے پاکستان پر بھی نظر رکھتا ہو اور اس تاریخ کو بھی جانتا ہو جو اسلامی پاکستان کا خواب دیکھتے دیکھتے گزر گئی ۔ امریکی ڈرون حملوں کے خلاف ایک دینی جماعت نے قرارداد پیش کی بلا اختلاف یہ قراردادپاس بھی ہوئی ،مگر ابھی اس قراردادکی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ قبائلی مسلمانوں پرامریکہ نے ڈرون حملہ کرکےنہ صرف بے شمارمعصوموں کوخون میں نہلادیابلکہ آئندہ حملے تیزکرنےکااعلان بھی کردیا۔ جمہوریت کا عالمی چیمپئن امریکہ ہویاامتِ مسلمہ پران کے مسلط کردہ لادین مقتدرحلقے،یہ ہمیشہ مسلمان عوام کو ان قراردادوں کی اصل اور عملی حیثیت اور بے وقعتی دکھاتے رہے ہیں، مگرہماری دینی سیاسی جماعتیں اس تاریخی اورواقعاتی حقیقت کے باوجود اندھیروں سے روشنی کی بھیک مانگنے پرہی مصرنظرآرہی ہیں۔ کیاایسانہیں کہ جب دینی جماعتوں کوحکومت اوراسمبلیوں میں تاریخی اکثریت نصیب تھی عین اسی دورمیں ریاست پاکستان نے سب سے زیادہ کفرکاساتھ دیااوراہلِ دین کی بیخ کنی کے لیے اپنے سارے وسائل بروئےکارلائی۔۔۔؟جن لوگوں کی ذمہ داری کفرکوکفرکہہ کرمخاطب کرناتھی،منکرکے طوفان ِعظیم کے سامنے بندباندھناتھی،باطل قوت کے سامنے باطل سے نفرت اورحق سے محبت کادوٹوک انداز میں اظہارکرتے ہوئے مزاحمت کرنی تھی ،یاکم ازکم حق اورباطل کے درمیان امتیازی لکیرکوجلی اورواضح رکھناتھا ،وہ لوگ جمہوریت کواپناکرمداہنت کے ایسے پیکربن گئےکہ اُن کی آنکھوں کے سامنے ملک کے مقتدرسیکولرطبقےکفرنافذاورظلم پرفیصلے کراتے رہے ،لادینیت کی ترویج کرتے رہے،شریعت کامذاق اڑاتے رہے،پوری نسل کوشریعت سے متنفرکرتے رہے ،اسلام اوراہل اسلام کے خلاف قوت استعمال کرتےرہے، علماء کاخون اس ملک میں بہاتے رہے ،بڑی ڈھٹائی کے ساتھ معروف (جہاد)کومنکراورمنکر(اہل اسلام کے خلاف کفرکی مدد)کومعروف ثابت کرتے رہے اوردین غالب کرنے کے لیےمیدانِ سیاست میں موجودیہ جماعتیں حق کوحق اورباطل کو باطل،اسلام کو اسلام اور کفرکوکفرتک کہنے سے گریزاں رہیں کیونکہ ان کی زبانیں نظامِ جمہوریت میں شمولیت نے بندکررکھی تھیں،ان کواپنی ‘‘سیاسی قوت ’’یا‘‘اسٹریٹ پاور’’حرکت میں لانے سے روکنے کے لیے پارلیمنٹ کی اپوزیشن لیڈری ،رکنیتیں ،اورصوبائی حکومت پاؤں کی بیڑیاں بنی رہیں۔سیکولرزطاقت کے بل پراسلام مخالف قوانین کی تنفیذکرتےاوریہ قانون کے دائرے میں رہ کرجمہوری خدمت پرعمل پیرادکھائی دئیے ،وہ قوت کی زبان سے اللہ کے دین کارستہ روکتے، اوریہ عدم تشددکی راہ اپناکرانہیں چھوٹ دیتے،وہ سرِعام اسلامی احکامات پاؤں تلےروندتےرہے،اور اِنہوں نے اُن کے کفرکوبھی کفرتک کہنے کی ہمت نہ کی کہ مبادا ان پردینِ جمہوریت سے باغی ہونے کی چھاپ نہ لگ جائے ۔ اُن لادینوں کامشن اس زمین سے اسلام اوراسلام کی صحیح تعبیرکرنے والوں کومٹاناہے اور اِنکاغم اپنے آپ کوکفرکےجمہوری اصولوں کے وفاداردکھاناٹھہرا۔ جمہوریت کے عالمی علمبرداروں کے سامنے اپنے آپ کواسلامی سے زیادہ جمہوری ثابت کرناہی ان کادکھ دردرہا۔۔۔احتجاج ہویاتحریروتقریربلکہ اصطلاحات کے استعمال تک میں بھی جمہوری اصولوں پرعمل کامظاہرہ ہی ان کا نصب العین نظرآیا ۔۔اب اگریہ جمہوری نظام اسلامی ہے ،تو پھر ہماری دینی جماعتیں اسلامی نظام کے قیام کی تحریک کیوں چلار ہی ہیں ؟اوراگریہ غیراسلامی ہے تواسے ڈنکے کی چوٹ پرکافرانہ نظام کہنے سے کیامانع ہے ؟ظاہرہے اس کے علاوہ کیارکاوٹ ہے کہ جمہوری کلچرمیں جمہوری سیاسی زبان بولی جاتی ہے، شرعی نہیں!
باطل کوباطل کہنا اور اس سے اجتناب کرناہی حق کی فتح کی طرف پیش قدمی ہے!
مسلمان عوام کودین کاصحیح فہم دلانا،کفر کے ہربہروپ سے پردہ چاک کر کے اصل کفریہ چہرے کی پہچان دلانا دینی جماعتوں کی اہم ذمہ داری بھی ہے اوراسلامی خلافت کی طرف ایک بڑی پیش قدمی بھی!یہ پیش قدمی سیکولرجماعتوں کے اظہارکفرسے نہیں رکتی ،ان کے اظہارکفرسےتواسلامی تحریک کوقوت ملتی ہے،عوام اپنادین خطرے میں دیکھ کر بیدار ہو جاتے ہیں، یہ جماعتیں اس پیش قدمی کی راہ میں رکاوٹ تب لاتی ہیں جب عوام کودجل کاشکارکرتی ہیں اورباطل کے اندرانھیں حق کی کچھ نام نہاد علامتیں دکھلاتی ہیں،پھرعوام صریح باطل کواس لیے ردنہیں کرپاتی ہے کہ اس میں حق کی آمیزش کی گئی ہوتی ہے۔ شریعت کی نظرمیں دینی رہنماؤں کی بڑی ذمہ داری ہی حق کوحق اورباطل کوباطل دکھاناہے ،نہ کہ اس قدر خلط ملط دکھائے کہ عوام کو حق وباطل کی شناخت کرنااور قبول وعدم قبول کافیصلہ کرناہی مشکل ہوجائے ۔ ہمارے دینی طبقات کاجمہوری نظام کاحصہ بننا نظام کے دجل میں اضافے پرمنتج ہواہے ، الیکشن کے موقع پر عوام کوسیکولروں اوردینداروں کی تقسیم دکھادی جاتی ہےان دونوں میں سے کسی ایک کاانتخاب اور تقویت دلانے کااختیارنظرآتاہے ،دینداروں کوووٹ مل جاتے ہیں،وہ اپوزیشن کے بنچوں پربیٹھیں یاکسی جگہ حکومت کی چابیاں انھیں مل جائیں،نظام وہی کاوہی ہوتاہے۔ مگرسوال یہ ہے کہ اس طاغوتی نظام کے ساتھ ایک مومن کارویہ وفاداری کا ہوناچاہیےیابغاوت اورنفرت کا؟ان بحثوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دلائی جاتی ،بس اگلے الیکشن میں مزیدسیٹیں لینے کی کوشش محض نالیاں اور سڑکیں پکی کرنے کی صورت میں شروع ہوجاتی ہے،ایسے میں جب سوال اٹھتاہے ،کہ نظام کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کی مدد کرنی ہے یااس نظام کادفاع کرناہے ؟ یہی وہ نکتہ ہوتاہے جہاں پردین سے محبت رکھنے والے سادہ دل لوگ بھی مجاہدین کی حمایت کے بارے میں مترددہوجاتے ہیں !کیونکہ کفریہ اصولوں پرچلنے والے اس نظام کے ماتھے پر دینداروں کی موجودگی کی صورت میں’’خیرکی گنجائش ابھی موجودہے’’کابورڈ لگا ہوتاہے۔ان دینداروں کومحض اس ‘‘بورڈ’’ کی نمائش کے لیے رکھناہی سیکولرزکامقصدہوتاہے ،کہ اِسی سے اُن کی کھال بچتی ہے ۔

دینی جماعتوں کافائدہ عوام کے اندرہے ،ایوان حکومت اوراسمبلیوں کے اندرنہیں!
کفریہ طاقتیں اسلام دشمنی میں تو شدت اختیارکرتی ہیں ،مگر اسلامی تحریکوں کوجمہوریت کی مین اسٹریم (main-stream) میں لانے کے لیے سب سےبڑھ کر مخلص اورپرعزم یہی طاقتیں ہی نظرآتی ہیں۔ان کی کوشش ہے کہ کسی طریقے سے یہ جماعتیں جمہوری نظام کے اندرکوئی مقام قبول کرلیں ،بھلے یہ منصب اپوزیشن ہی کیوں نہ ہو،بس حصہ بن جائیں۔ اگر یہ دین دار اس لادین نظام کا حصہ بن جائیں توفائدہ ان لادینوں کاہوتاہے، کہ جن ہاتھوں نے اس نظام کو مسمار کرنے کے لیے اٹھنا تھا وہ اس نظام کو تقویت فراہم کرنے کے لیے استعمال ہو رہے ہوتے ،جوصلاحیتیں لوگوں کواس نظام سے دوررکھنے اور اس کے خلاف کھڑاکرنے کے لیے استعمال ہونی تھیں وہ اس نظام ہی کاحصہ رہنے،اس سے لایعنی قسم کی اُمیدیں رکھنے اوراس ظالمانہ نظام ہی سے وفاداریاں قائم رکھنے پرصرف ہوں گی ۔

اپوزیشن پارٹیاں حکومت مخالف ہوتی ہیں ۔۔۔ مگر حکومت کی اطاعت قانوناً فرض بھی سمجھتی ہیں!
جمہوری نظام کے اندرکفراوراسلام عملی طورپرکوئی معنی نہیں رکھتا۔ تنوع قائم رکھنے اورنظام کے خلاف عوامی جذبات کورستہ دینے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کااختلاف ضرورہوتاہے،مگریہ دونوں بھی نظام کے دفاع اوردوام میں یک جان دو قالب کی مانندہوتے ہیں۔ حکومت چاہے کتناننگاکفرکیوں نہ کررہی ہو،مگراپوزیشن پارٹیاں حکومت کی قانونی حیثیت قبول کرنااوراسکاوفاداررہناجمہوری فرض سمجھتی ہے۔ پرویزکےدورمیں حقوق نسواں بل کی منظوری توایک مثال ہے ، جہاں دینی جماعتوں نے ہی اس بل کو ‘‘زنابل’’ کانام دیاتھامگراس بِل پرجب اکثریت نے دستخط کردئیےتوہمارے اپنے دینداروں کے سامنے بھی اس کی قانونی حیثیت قبول کرنے کے لیے سرجھکانےکے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ایک شخص کوڈاکو،چوراورباطل نظریات وکردار کے حامل ہونے تک کے الزامات سے نوازاجاتاہےمگروہی شخص پارلیمنٹ کے ذریعے آئے،تواس ڈاکواوردین دشمن کی سربراہی قبول کرنا بھی قانونی اوراخلاقی فرض بن جاتاہے۔۔۔

جمہوری نظام کوئلے کی کان کی مانندہے۔۔۔کیاسیکولراورکیااہل ِدین،سب پرایک ہی ’’رنگ‘‘چڑھتاہے!
کیاوجہ ہے کہ آئی ایم ایف اورورلڈبنک کومسلمانوں کے معاشی قتلِ عام کاذمہ دارقراردینے والے اپنی صوبائی حکومت میں انہیں دشمن اداروں کی نہ صرف پالیسیاں آگے بڑھانے پرمجبورنظرآئے بلکہ اس قدردیانتداری سے خدمات کی انجام دہی کی کہ ان کے عوض انہی اداروں سے ‘‘حُسنِ کارکردگی’’کے ایوارڈتک وصول کیے؟افغانستان پرامریکی حملے کے خلاف لاکھوں لوگوں کے مظاہرے کرانے والے لوگ الیکشن میں سیٹیں اورایک ڈیڑھ صوبے کی حکومت لینے کے بعدامریکی غلام پرویز مشرف کے جرائم کے خلاف کیوں کوئی مؤثرتحریک نہیں کھڑی کرسکے؟ یہ لوگ حکومتِ پرویزکی فرینڈلی اپوزیشن کیوں بنے حالانکہ امریکی جنگ کاپورا دارومدار پرویزاوراس کی حکومت پرتھا؟جن لوگوں نے جیکب آباد میں امریکی اڈے کامحاصرہ کیاتھا، الیکشن کے ذریعے سرحدحکومت حاصل کرنے کے بعد انہیں وزیرستان آپریشن کامحض تماشہ ہی کیوں دیکھناپڑا؟نیٹواورامریکہ کے نظریاتی دشمنوں کی صوبائی حکومت ہوتے ہوئےاسی صوبے سے نیٹوسپلائی کیوں جاری رہی؟ایم ایم اے کی صوبائی حکومت میں خودانہی کے صوبے سے امریکی ایف بی آئی کے ہاتھوں مجاہدین کی گرفتاریاں عمل میں آئیں مگر امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کرنے والے یہ رہنماء کیوں مجبورِ محض ہی ثابت ہوئے؟
یہ سب اس لیے کہ جمہوریت میں شامل ہوکرجمہوری کفریہ روایات کاپاس رکھناہی بڑی مجبوری بنتی ہے!اوریہی وہ مجبوری ہے جس سے سیکولرجماعتوں کوفائدہ ملتا ہے!افغانستان میں طالبان کاالیکشن کی مخالفت کرنا ہی سیکولرلوگوں کے لیے موت ہے اور یہی مخالفت اسلامی امارت کے قیام کا رستہ ہے۔ عراق ہویاافغانستان،فلسطین ہویاصومالیہ ، الجزائرہویاپاکستان؛ دنیاکےہرگوشہ میں اسلامی تحریکات کوجمہوری نظام میں ‘‘اِن’’ کرنے کی سرتوڑکوششیں جاری ہیں ۔اورجب یہ تحریکیں ایک دفعہ اس نظام میں داخل ہوجاتی ہیں۔۔۔توپھرکفرکے ہاں دینی اورسیکولرجماعتوں کی تقسیم اہم تقسیم نہیں رہتی ۔۔۔ اصل تقسیم کفریہ نظام ماننے والوں اورنظام کے خلاف نظام سے باہرکھڑےہونے والوں کی تقسیم ہے ۔۔۔دینی جماعتیں کسی بھی عنوان سے اس نظام میں شامل ہوں ،جب وہ اس نظام کوبطورِکل قبول کرنے والی ہیں اورجزوی تبدیلی کی دعوت دے رہی ہیں توکفریہ طاقتیں حوصلہ افزائی کرتی ہیں ، انہیں اس کی کوئی پریشانی نہیں رہتی کہ کون اسلام سے اپنے آپ کومنسوب کرتاہےاورکون امریکہ مخالف ریلیاں نکالتاہے ۔ امریکی وزیرخارجہ کامصری فوج کے لیے یہ تاکیدی بیان کہ ‘‘اخوان المسلمون کوموقع فراہم کیا جائے’’ اس اَمر کی ایک واضح مثال ہے ۔
اس کے بر عکس جمہوری نظام سے باہررہ کرنظام کی مخالفت کرنےاورتبدیلی کی کوشش کرنے والے اسلحہ اٹھائیں یانہ اٹھائیں،کفریہ طاقتیں انہیں اپنادشمن گردانتی ہیں،مالی میں اسلامی امارت کی طرف پیش قدمی اللہ کے فضل کے بعدوہاں کی عوام کی تائیدونصرت کے سبب ہوئی مگراس عوامی اوراسلامی تحریک کودبانے کے لیےکفرنےاپناپورازورلگادیا۔ اس طرح بعض تحریکیں جہادکی بات نہیں کرتیں مگرجمہوریت کے خلاف چونکہ بولتی ہیں اس لیے انہیں ‘‘آزادی رائے ’’ کے علمبرداروں کی پابندیوں کاسامناہے۔

شریعت شرعی راستے سے آتی ہے !
سیاسی حکمت کے علاوہ ایک اور پہلوسے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے ،جمہوریت ایک باطل نظام ہے ،اس نظام میں خلوص نیت کے ساتھ اصلاح کی غرض سے شریک ہونا،الیکشن لڑناعلماء کے ہاں اگر کفرنہیں تو گناہ کاکام ضرورہے ،اب کیاہم ایک حرام کام محض اس لیے کرسکتے ہیں کہ اگرہم اسے نہ کریں یااپنے دوسرے بھائیوں سے یہ کام نہ کراوائیں توسیکولرلوگوں کوفائدہ ہوگا؟ سودحرام ہے،سیکولرلوگ اس سے فائدہ لے رہے ہیں توکیاہم کسی اسلامی پارٹی سے وابستہ لوگوں کوچھوٹ دے سکتے ہیں کہ وہ سودی کاروبارسے دست بردارنہ ہوں کیونکہ ایسے میں سیکولر لوگوں کوزیادہ فائدہ ہوگا؟؟کیاسود کی حرمت کابیان ہم اس وجہ سے ملتوی کرسکتے ہیں کہ ایسے میں دینی لوگ سود چھوڑیں گے اورسیکولرلوگوں کے لیےمیدان خالی ہوجائے گا؟؟اگرایسانہیں توپھرہم جمہوریت کے حوالہ سے کیوں اس مداہنت کاشکارہوں۔۔۔؟ ہمیں یادرکھناچاہیے کہ دین کی مصلحت یہی ہے کہ اس کی اس صورت پرعمل ہوجسے اللہ نے نازل کیاہے ،اللہ کادین اسی رستے سے غالب آئےگاجواللہ نے مقرر کیا ہے، غیر شرعی راستے سے نہ کبھی شریعت آئی ہے اورنہ ہی شریعت کاہم سے ایساکوئی مطالبہ ہے کہ ہم سیدھے رستے کوچھوڑکر ان بھول بھلیوں پرقدم رکھ کرگمراہ ہوجائیں۔قل أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ سیکولرجماعتوںکونقصان پہنچانے کے لیے دینی سیاسی جماعتوں کواسمبلیوں سے باہررکھنے کی کوشش کرنی چاہیے!
ہمارے ہاں دینی جماعتیں کفریہ حکومتوں کے خلاف بہترین مزاحمت تب ہی کر پاتی ہیں جب اسمبلی کی رکنیت ، کابینہ میں کوئی وزارت ،یاپارلیمانی کمیٹی کی ممبرشپ ان کے پاؤں کی بیڑیاں نہ بنی ہوں۔ایسی صورت میں جہاں ایک طرف صحیح شرعی و فکری تربیت کاموقع ملے گا، وہیں دوسری طرف یہ حلقے  سول نافرمانی ، اسٹریٹ پاور،ٹیکسوں کی عدم ادائیگی اورایسےدیگرذرائع استعمال کرکے حکومت کوگھٹنےٹیکنے پرمجبورکرسکیں گی۔اس لیے ہماری کوشش ہوکہ اپنے ان بھائیوں کوہم اسمبلیوں سے دورہی رکھیں ۔۔۔ایساہواتویہی سیکولرجماعتوںکونقصان پہنچاناہے۔۔۔یہی اس ملک میں لادینیت کے سیلاب کے سامنے اہل اسلام کے بندکومضبوط کرناہے ۔۔۔ورنہ خدانخواستہ کہیں پھرہمارے ان بھائیوں کواسمبلیوں میں پہنچنے کی آزمائش کاسامناہواتو پھر ہمیں حکومت کے دین دشمن افعال کے سامنے ملک میں ان دینی سیاسی جماعتوں کی طرف سے عملی طورپرمکمل سناٹادیکھنےکوملے گا ۔
کیااس طرح خالص سیکولرقوتوں کاحکومت میں آنے کارستہ ہموارنہیں ہوگا؟
کوئی کہہ سکتاہے کہ یہ توسیکولرجماعتوں کے ہاتھوں میں حکومتی باگ ڈور تھماناہوگا یا یہ کہ یہ تولادینوں کے سامنے میدان خالی چھوڑنے کے مترادف ہوگا،سبحان اللہ!!اس ملک کے اندرسرتوڑکوششوں کے باوجودبھی دینی جماعتوں کے ہاتھوں میں اختیاررہاہی کب ہے ؟ دشمن کے مرضی کی پِچ(میدان )میں دشمن ہی کے کھینچی گئی لکیروں پراچھل کود کرنا’’کھیل‘‘ ہی کہلاتاہے ، اس پچ کومیدان جنگ اوراس کھیل کوجنگ توخودہمارےدشمن نے بھی کبھی نہیں کہا!! دینی جماعتیں لادین جماعتوں کے سامنے میدان کارزارمیں اترے ہی کب ہیں کہ انہیں میدان خالی چھوڑنے کی فکرتنگ کرے ؟اگر ہماری دینی سیاسی جماعتیں نظام کفرسے نجات اور قیام خلافت کی منزل میں واقعی سنجیدہ ہیں توپھر ملک میں تمام دینی حلقوں کی قوت کارخ ایک طرف لگانے کی دعوت قبول کرنی چاہیے،انہیں خوداحتسابی سے گزرکرشرعی پیمانوں سے مصالح ومفاسد کی تقسیم دیکھنی چاہیے۔اس کے نتیجے میں جب یہ جماعتیں جمہوریت پر تین حرف بھیج کرعوام میں تحریک چلانے کے لیے نکلیں گی توان کوششوں کامرکزاسمبلیوں میں چندسیٹوں کا حصول ہوگااورنہ ہی ان سیٹوں کی حفاظت کے لیےمداہنت ہوگی ، ان کاہدف عوام کوقیام خلافت کےایک عظیم مقصدپرمجتمع کرناہوگا، ان کی عوامی اورسیاسی قوت کارخ ملک میں موجوداصلاحی تحریک کوتقویت دینے پرمنتج ہوگا۔

لوہاگرم ہے!
داعی کوموقع کی تلاش ہوتی ہے ،اورجمہوریت کادجل اوربطل ان بیان کرنے لیے بہترین موقع یہی الیکشن کاوقت ہے ،آج ہرپارٹی ،اوراسکاہرامیدوارعوام کوسبزباغ دکھانے کی دوڑمیں لگاہے ،جس کے لیے اس ظالمانہ نظام کے ایک ذرّےکوبھی ہلانامحال ہے وہ انقلاب اورتبدیلی لانے کے بلندوبالادعوےکرتانظرآرہاہے ،عوام ایک دفعہ پھرڈرامےکاشکارہونے والے ہیں،ایسے میں دین کے داعیوں کافرض بنتاہے کہ اس سنہری موقع پرجہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں ،حق کی بات عوام کوپہنچائیں ،انہیں بتایاجائے کہ یہ سب دھوکہ ہے ،ڈرامہ ہے ،اس نظام کے ہوتے ہوئے کوئی بھی بہتری نہیں لائی جاسکتی ،ظلم بڑھتاجائےگا،محروموں کی محرومیاں کم نہیں ہوں گی ،انقلاب کی بات جتنااچھاشخص بھی کرے ،دعوے کرنے والاکتنی ہی خوبیوں کامالک کیوں نہ ہواس کی برائی اورخامی یہ ہے کہ وہ اس نظام میں رہ کرتبدیلی کی بات کرتاہے ،اس کوردکرنے کے لیے یہ دلیل کافی ہے کہ وہ ایسے رستے پرتبدیلی لانے کے لیے آپ کوبلاتاہےجواللہ نے تبدیلی کے لیے مقرر ہی نہیں کیا! اللہ کی رحمت چاہیے ، ظلم وناانصافی سے نجات چاہیےتووہ شریعت میں ہے ۔اللہ کی برکتیں نازل ہوناشروع ہوتی ہیں جہاں اللہ کی کتاب حاکم بنتی ہے ۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی