فلسفہ چھوٹی بُرائی اور بڑی بُرائی اور الیکشن میں دینی جماعتوں کی شرکت



فلسفہ چھوٹی بُرائی اور بڑی بُرائی  اور الیکشن میں دینی جماعتوں کی شرکت

حقیقت یہ ہے کہ ایک بڑی برائی کے سد باب کے لئے اس سے ایک کم تر برائی کو اختیار کئے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو تو ایسی کم تر برائی کو اختیار کرنا ایک شرعی اصول ہے۔ ہمیں یہ بات تسلیم ہے۔فقہا ءکرام اس کی مثال یہ بیان کرتے ہیں کہ جب سعد بن معاذ نے بطور ثالث یہود بنی قریظہ کے بالغ مردوں کو قتل اور نابالغوں کو زندہ چھوڑ دینے کا فیصلہ دیا اور رسول اللہ نے سعد کے اس فیصلے کو درست اور لاگو قرار دیا تو بالغ اور نابالغ لڑکوں کے تعین کے لئے صحابہ نے جہاں پر ضرورت محسوس کی ان کو برہنہ کیا۔ چنانچہ کسی کے زیر ناف ستر پر نظر ڈالنا اگرچہ شرعاً ممنوع ہے مگر کسی کی ناحق جان لے لینا اس سے زیادہ بڑا اور کبیرہ گناہ ہے۔ لہذا جہاں کسی کی بلوغت کے بارے میں شک ہوا وہا ں اس کاستر دیکھ لینا کم تر برائی قرارپایا اسی طرح خواتین کےلئے مرد طبیب کے سامنے جب کوئی اور چارہ یا متبادل نہ ہو، جسم کے بعض حصے بغرض علاج کھول دینا جائز قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ جسم کا کوئی حصہ کھولنا اگرچہ ایک برائی ہے مگر جان کا نقصان کرنا اس سے بڑی برائی ہے۔ کسی ظالم کو مال دے کر جان بچا نا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔
بنا بریں اس اصول کے اطلاق کے لئے ان دو شرطوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔

١۔ جس برائی کو دفع کیا جارہا ہے، وہ واقعتا بڑی برائی ہو اور اسے دفع کرنے کے لئے جس برائی کو اختیار کیا جارہا ہے وہ واقعتا اس سے چھوٹی ہو۔ مثال کے طور کسی چھوٹے موٹے مالی نقصان سے بچنے کے لیے اپنے دین کو خطرے میں ڈال لینا اس شرط کی رو سے درست نہ ہوگا۔ کیونکہ ایمان کو بچانا چھوٹے موٹے مالی نقصان سے بچنے کی نسبت زیادہ بڑا فرض ہے۔ لہذا فقہ میں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ جس چیز کو اختیار کیا جارہا ہے واقعتا وہ چھوٹی برائی ہو اور جس چیز کو چھوڑ ا جارہا ہو وہ واقعتا بڑی برائی ہو۔

٢۔ دوسری شرط یہ ہے کہ چھوٹی برائی بھی صرف اسی وقت اور اسی حد تک اختیار کی جائے جب اور جہاں تک اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو ۔
اب آیئے انتخابی سیاست میں شرکت کے مسئلہ پر ذرا اس اصول اور ان شروط کا اطلاق کرے۔

انتخابی سیاست میں شرکت کوجائز ثابت کرنے کے لیے کس چیز کو چھوٹی برائی سمجھ کر اختیار کیا جائے گا؟ جیت ہار کے غیر اسلامی اورباطل اصولوں کوتسلیم کرنا، انتخابی مہم میں ہر اچھے اور برے آدمی سے پرچی کا سوال کرنا، انتخابی مہم کے دنوں میں شرک اور توحیدتک کے بہت سے معاملات پر سکوت اختیار کرلینا، بہت سے لادینوں اور شرک کے سرغنوں سے اتحاد اور یکجہتی کااظہار کرنا۔ کل جن لوگوں کو اسلام کا دشمن کہا جاتا رہا، ان سے کسی قسم کا توبہ کااعلان ہوئے بغیر ، آج ان کے ساتھ کھڑے ہونا اور عوام الناس کے سامنے ’ہم ایک ہیں‘ کا اعلان کرنا ، کل جن سے یکجہتی تھی آج اسلام کی خاطر ان کے مد مقابل کھڑا ہونااور یوں لوگوں کو یہ بات کہنے کا موقع فراہم کرنا کہ کوچہ سیاست میں دوستی اور دشمنی کے معیار موسموں کی طرح تبدیل ہونے سے دین داروں کے اصول بھی مستثنیٰ نہیں، پھر انتخابات میں ہار جانے کی صورت میں انتخابی قواعد اور جمہوری اقدار کے احترام میں جیتنے والے فاسقوں کے حق حکمرانی کو کھلے دل‘سے تسلیم کرنا اور انتخاب میں جیت پانے کی صورت میں قانون سازی ایسے خدائی اختیار کے حامل انسانوں میں اپنا باقاعدہ اندراج کروانا، باطل نظام اور آئین سے وفاداری اور غیر اللہ کے بنائے ہوئے قانون کی پاسداری کا باقاعدہ حلف اٹھاناوغیرہ وغیرہ یہ سب چھوٹی برائی ہے!

اور بڑی برائی کیا ہے جس کا اس چھوٹی برائی کو اختیار کرکے خاتمہ کردیا جاتا ہے؟ بڑی برائی کے خاتمہ میں جو چیز آتی ہے وہ ہے غیراسلامی نظام کاخاتمہ کرکے اس کی جگہ اسلامی حکومت کاقیام ، کفریہ قانون کی جگہ اسلامی شریعت کا نفاذ، ملک کے اندر اور باہر مسلم مفادات کا حصول، معاشرے میں فحاشی اور عریانی کا خاتمہ اور اس کی جگہ اسلامی اقدار کا فروغ ، ٹی وی ، اخبارات ، ذرائع ابلاغ اور نظام تعلیم میں اباحیت، بے حیائی اور لادین رجحانات کا خاتمہ کرکے ان سب اداروں کو اسلامی تہذیب کا عکاس بنانا۔اب ذراآپ خود ہی ’چھوٹی برائی‘ اور’ بڑی برائی‘ کا موازنہ فرما لیجئے۔

پہلی بات تو یہ کہ جس چیز کو آرام سے چھوٹی برائی قرار دے دیا گیا بلکہ اس کا’برائی‘ ہونا کسی توجہ کے قابل ہی نہ سمجھا گیا اسکے بارے میں یہ فتوی دینا کہ یہ چھوٹی برائی ہے اور بڑے آرام سے اختیار کی جاسکتی ہے ، نہ حقیقت پر مبنی ہے اور نہ شرعی اصولوں پر۔ اپنے دین کے بالکل بنیادی اصولوں کی ایک ایک کر کے قربانی دے دینا اور اس کے نتیجے میں شرک و توحید کا فرق تک نظرو ں سے اوجھل کردینا چھوٹی برائی کیسے ہوگیا؟
اس ’چھوٹی برائی ‘کواختیار کرنے کے عوض یہاں توچند سیٹوں کا ہی امکان ہوتا ہے، اور وہ بھی یقینی نہیں صرف ’امکان‘ ہوتا ہے مگر ہم دیکھتے ہیں قریش کی جانب سے رسول اللہ کو کچھ اصولوں کی قربانی کے عوض کل اقتدار کی پیش کش ہوتی ہے ۔ اندازہ کر لیجئے ’چند سیٹیں‘ نہیں اور بھی جن کا صر ف ’امکان‘ ہو بلکہ اقتدار کی کلی اور یقینی پیش کش۔ مگر اللہ کے رسول عتبہ بن ربیعہ کے ذریعے ملنے والی قریش کی اس پیشکش کو صاف ٹھکرا دیتے ہیں اور اس ’پیشکش‘ کی تفصیلات‘ میں جانے کی ادنی سی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔ اصولوں کی قربانی اور وہ بھی عقیدے کے بنیادی اور اساسی اصول ہوں، آخر چھوٹی برائی کیسے قرار پاگئی۔ امت مسلمہ کی تو پہچان ہی اصولوں پر مفاہمت سے صاف انکار کردینے میں ہے ۔ ہماری اصل شناخت ’اصول پسندی‘ میں ہے نہ کہ عمل کی ’نتیجہ خیزی‘ میں۔ اپنے دین اور عقیدے کے دیئے ہوئے اصولوں پر صبر و استقامت اور پامردی و دلجمعی سے چلتے چلے جانا ہمارا کام ہے اور اس سے نتائج پیدا کرنا خدا کا کام۔ خدا کا کام ہم اپنے ذمہ کیوں لیں اور اپنے کام کو خود محنت کیے بغیر خدا پر کیوں چھوڑدیں؟
دوسری بات یہ کہ وہ چیز بھی ذرا قابل غور ہے جسے ’بڑی برائی کے دفع ‘یا’بڑی خیر کے حصول‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت جو چیز بیان کی جاتی ہے اس کا ایک بار پھر اعادہ کرلیتے ہیں:

غیر اسلامی نظام کا خاتمہ اور اس کی جگہ اسلامی حکومت کا قیام، کفریہ قانون کی جگہ اسلامی شریعت کا نفاذ ،ملک کے اندر اور باہر مسلم مفادات کا حصول، معاشرے میں فحاشی اور عریانی کا خاتمہ اور اس کی جگہ اسلامی اقدار کا فروغ، ٹی وی ،اخبارات ، ذرائع ابلاغ اور نظام تعلیم میں اباحیت ،بے حیائی اور لادین رجحانات کا خاتمہ کرکے ان سب اداروں کو اسلامی تہذیب کا عکاس بنانا

مان لیا کہ ہم نے چھوٹی برائی کا چناؤ کرلیا، اپنے عقیدے اور اصولوں کی قربانی کرلی مگر اس کے عوض ہمیں جس چیز کی امیددلائی جارہی ہے وہ کہاں تک ہمارے ہاتھ آنے والی ہے اور کہاں تک اس کا کبھی امکان پیدا ہوا ہے؟ 68 سال کا عرصہ کیا یہ اندازہ کروانے کے لئے بھی کافی نہیں؟
ا ور ویسے سوال تو یہ ہے کہ اصولوں کی قربانی کرکے کبھی مسلمانوں کے ہاتھ کچھ آیا بھی ہے؟؟؟ اصولوں کی قربانی کا فائدہ ہوتا ضرور ہے مگر صرف ان لوگوں کو جو بے اصول ہو ں مگراسلام پسند ،نیک اور مخلص مسلمانوں کے ہاتھ اس سودے میں کیا آئے گا، اس بات سے اگرہم پچاس سال پہلے لا علم تھے تو اس سے غافل رہنے کا ہمارے پاس شاید اب کوئی عذر نہیں۔

چنانچہ چھوٹی برائی اور بڑی برائی کے اس فلسفے میں ہم مسلمان بہت بری طرح مار کھاتے ہیں ۔جو چیز ہم سے لی جانا ہے ہمارا وہ اپنے ہاتھ سے دے دینا یقینی ہے۔ حتی کہ عقیدے کی یہ قربانی اور اصولوں کی یہ بھینٹ بلاتامل دے دینا اب ہمارے لیے اس قدر معمول کی بات ہو گئی کہ اسلام کی یہ’ خدمتابتداءمیں ہم کبھی ایک’ ناگوار فرض‘ سمجھ کر انجام دیا کرتے تھے تو اب یہ حالت ہے کہ ہم اس ’چھوٹی برائی‘ کو اختیار کرتے وقت اتنا تردد اور اتنی اذیت بھی شایدہم محسوس نہ کرتے ہوں جتنی ایک پردہ دار خاتون نبض دکھاتے وقت کسی غیر محرم طبیب کے ہاتھ کے لمس سے ایک شدید حرج اور بے چینی کی صورت میں محسوس کیا کرتی ہے!

اس لحاظ سے غور کریں تو انتخابات میں شرکت کو ہم مجبوری یا چھوٹی برائی بھی شاید ازراہ محاورہ کہہ لیتے ہیں مگر محسوسات کی دنیا میں کہاں تک یہ ہمارے لیے واقعی ایک برائی کا درجہ رکھتی ہے اور پارلیمانی سیاست اورانتخابی اکھاڑ پچھاڑمیں زندگی گزارتے ہوئے سرے سے ہم اس کو برائی سمجھتے بھی ہیں یا نہیں ، یہ تو اللہ ہی جانتا ہے اور کسی حد تک اس کا اظہار ہمارے روز مرہ معمولات اور تاثرات سے بھی شاید ہوجاتا ہے۔
غرض چھوٹی برائی اور بڑی برائی کا یہ موازنہ دلچسپ بھی ہے اور افسوسناک بھی۔ چھوٹی برائی اختیار کرتے ہوئے ہمیں اپنے جن اصولوں کی بھینٹ دینی ہے اور جو کچھ اپنے ہاتھ سے دینا ہے اور پھر دیتے ہی چلے جانا ہے یہ سب کچھ ہاتھ سے جانا یقینی ہے۔ مگر اسکے بدلے میں بڑی برائی سے بچنے کے نام پر ہم جو حاصل کریں گے اس کاہاتھ آنے کا نہ کوئی یقین ہے اور نہ کوئی صورت بلکہ اگر حقیقت پسندی سے کچھ بھی کام لیا جائے تو اس کی امید تک نہیں۔ آج 68 سال بعد بھی نہ اس راہ سے ’اسلامی حکومت‘ کے قیام کی کوئی امید ہے نہ شریعت کے نفاذ کی کوئی آس رہ گئی ہے۔ بے حیائی ، فحاشی اور عریانی میں بھی کچھ کمی آنے کی بجائے روز بروز اضافہ ہی ہوا اور ٹی وی و اخبارات کا چہرہ شرم و حیا سے عاری ہونے میں بھی اور سے اور بد نما ہوا اور معمولی غور و فکر سے بھی یہ واضح ہوجائے گا کہ یہ چہرہ ابھی آئندہ اور بھی بد نما ہوگا چاہے اسلام پسندوں کو حاصل ہونےوالی سیٹیں معمولی سے کئی گنا اور بھی بڑھ جائیں۔
چنانچہ اس راہ میں ہمارے ہاتھ سے جو کچھ جائے گا اسکا جانا قطعی اور یقینی ہے اور یہ سب دیئے بغیر اس کھیل میں شرکت کی اجازت تک نہ ملے گی۔ البتہ یہ سب کچھ دے دلا کر جو ہاتھ آنا ہے اس کا آنا بے یقینی ہے اور نرا وہم!حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کے لیے یہ سودا ہرگز وار ے کا نہیں۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی