کیا انتخابات کے ذریعے نظام خلافت کا قیام ممکن ہے از مولانا محمد زاہد اقبال


 کیا انتخابات کے ذریعے نظام خلافت کا قیام ممکن ہے از مولانا محمد زاہد اقبال


مولانامحمد زاہد اقبال اپنی کتاب "عصر حاضر میں غلبه دین کا نبوی طریقه کار"میں فرماتے هیں
موضوع   بحث  یہ ہے کہ جمہوری طریقہ نظام   خلافت قیام کا منہج ہے یا نہیں ؟ جمہوری   طریقہ یعنی انتخابات ، نظام خلافت کے قیام کا منہج نہیں ہے کیونکہ
ا)جمہوری نظام کابنیادی فکر " عوام کی حکومت ،عوام کے زریعے ،عوام کے لئے "اسلامی فکر سے متصادم  ہے۔اسلامی نظام کے نفاذ کے نام پر عوام سے ووٹ مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ عوام کے قانون سازی اور حکومت کے حق کو تسلیم کیاجارہا ہے اور انہیں یہ اختیار دیا جارہا ہے کہ وہ اسلام   کو قبول کریں یا اس کے بالمقابل ومتصادم باطل نظام کو۔ عوام کو اس بات کا حق دینا اور ان کے اس حق کو تسلیم کرنا اسلامی فکر و نظریہ کے صریح خلاف ہے۔


ب)پارلیمینٹ میں اکثریت رکھنے والی سیاسی جماعت کو قانون سازی کا حق ہوتا ہے ۔ جب تک دینی سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہوتی تب تک وہ قانون سازی نہیں کرسکتی ۔ جب تک دینی سیاسی جماعت اقلیت میں ہے،اس وقت تک مقابل اکثریت کے قانون سازی کے حق کو تسلیم کیا جارہا ہے کہ وہ چاہے تو اسلام سے متصادم قانون سازی کرسکتی اور پالیسیاں بناسکتی ہے ( کیونکہ  انتخابات میں اکثریت   حاصل کرنے والی جماعت کو عوام کی طرف سے دیے جانے والے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا جمہوری سیاست کا حصہ ء لازمہ ہے )   حالانکہ ان کا یہ حق تسلیم کرنا سراسر خلاف اسلام ہے۔
 ج) اقتدار تک پہنچنے کے لئے جمہوری نظام کے باطل دستور پر حلف اٹھانا لازم ہے کیونکہ حلف اٹھائے بغیر کوئی جماعت حکومت نہیں بناسکتی ، جمہوری دستور پر حلف اٹھانا لازم ہے کیونکہ حلف اٹھائے بغیر کوئی جماعت حکومت نہیں بناسکتی ، جمہوری دستور پر حلف اٹھانا خلاف شریعت ہے ۔
د)انتخابات میں اکثریت حاصل  کر کے اقتدار میں آنے والی جماعت کو پانچ سال تک حکومت کرنے کا حق ہے۔ مقتدر جماعت کو یہ شرط قبول کرنا اورا س پر عمل کرنا لازم ہے کیونکہ یہ جمہوری نظام کا بنیادی اصول ہے ، بالفرض اگر جمہوری طریقے سے کسی دینی سیاسی جماعت کا اقتدار قائم ہوجاتا ہے اور وہ اسلامی نظام بھی نافذ کردیتی ہے تو اسلامی نظام پانچ سال تک کے لئے ہوگا، جس کے بعد مقتدر جماعت کو اقتدار سے دستبردار ہونا پڑے گا جو کہ اجماع کے خلاف ہے کیونکہ خلیفہ( جب تک اہل ہے ) تاحیات حکمران ہوتا ہے ، نیز یہ نص کے بھی خلاف ہے کیونکہ شریعت کی بالادستی اسلامی نظام کا بنیادی اصول ہے ۔پانچ سال بعداقتدار سے دستبردار ہونے کا مطلب عوام کو پھر سے نظام اسلام یا باطل نظام کے انتخاب کا حق دینا ہے۔ نیز یہ کہ باطل نظام   اور اس کی حامل سیکولر جماعتوں کو دوبارہ سے برسر اقتدار آنے کا موقع فراہم کرنا ہے ۔
س)اسلامی نظام خلافت اور جمہوریت  دو متوازی نظام ہیں۔دینی سیاسی جماعتوں کی جمہوری سیاست میں شرکت سے باطل جمہوری نظام کی تائید وتوثیق ہوتی ہے ۔ عوام یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ جب علماء اس جمہوری سیاست کا حصہ بن رہے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ نظام حق ہے اور اسلام سے متصادم نہیں ، ورنہ علماء اسلام اس میں شرکت نہ کرتے ۔دینی سیاسی جماعتوں کے رہنما لاکھ تاویلیں کریں کہ ہم اس نظام کو نہیں مانتے اور مجبور اً اس میں شریک ہیں لیکن عوام ایسی باتیں سمجھنے سے قاصر ہیں اور معروضی حقائق بھی ان تاویلات کی تصدیق نہیں کرتے،کیونکہ انتخابات میں کامیابی کے بعد پارلیمیٹ اور سیاسی عمل میں سیکولر اور دینی سیاسی جماعتوں کے طرز عمل میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہوتا ہے ۔
ط)ہر نظام کی ایک اساسی فکر ہے۔ اس نظام تک پہنچنے کے لئے طریقہ ء کار اسی فکر سے ماخوذ ہوتا ہے جو اس فکر کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔ جمہوری نظام کا اساسی فکر سیکولرازم  ہے اور اس فکر سے ماخوذ طریقہ انتخابات ہیں، جو اسی فکر کے ساتھ خاص ہے۔ اسی طرح نظام خلافت کا اساسی فکر اسلام ہے ۔اس نظام تک پہنچنے کا طریقہ بھی اسلام نے بتادیا ہے جو اس فکر یعنی اسلام کے ساتھ خاص ہے۔ جیسا کہ آگے چل کر واضح ہوجائے گا ۔ عقل کا تقاضا یہ ہےکہ انتخابات کے ذریعے نظام جمہوریت تک پہنچا جا سکتا ہے نہ کہ نظام خلافت تک ۔ لہذا جس طرح اسلامی نظام کے ساتھ دوسرے نظام ہا ئے باطلہ جمہوریت ، سوشلزم وغیرہ کی پیوند کاری نہیں ہوسکتی اسی طرح نظام خلافت کے قیام کے لئے دوسرے نظاموں کے طریقہ کار بھی کار گر ثابت نہیں ہوسکتے ۔ یعنی اسلامی نظام، اسلام کے نام یعنی اپنی اصل اور مکمل شکل وصورت کے ساتھ اور اسلامی طریقہ سے ہی آسکتا ہے ۔ اس میں دوسرے باطل نظاموں کی پیوند کاری کرنا اور انہی باطل نظاموں  کے باطل طریقوں سے قائم کرنے کی کوشش کرنا غیر شرعی ، غیر فطری اور خلاف عقل ہے ۔
 (ظ ) جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کی فرع ہے ۔اس لئے جمہوری سیاست میں شرکت سے نہ صرف جمہوری نظام کی تائید وتوثیق ہوتی ہے بلکہ در حقیقت سر مایہ دارانہ نظام دو متوازی نظام ہیں ۔ لہذا اسلام میں براستہ جمہوریت، سرمایہ دارانہ نظام کی پیوند کاری نہیں کی جاسکتی ۔اگر بالفرض دینی قیادت جمہوری طریقے سے بر سر اقتدار آتی بھی ہے تو وہ آہستہ آہستہ سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بن جائے گی۔ جس سے سرمایہ دارانہ نظام کو ہی تقویت ملے گی ۔
(ع)جمہوری سیاست ایک ایسی دلدل ہے   جس میں ایک دفعہ داخل ہونے کے بعد  نکلنا انتہائی مشکل ہوتا ہے ۔دینی جماعتوں کی جمہوری سیاست میں شرکت سے اسلامی نظام خلافت  کے قیام کے لئے انقلابی جدوجہد  پس منظر   میں چلی جاتی ہے ۔ دینی جماعتیں  اس سے کنارہ کشی اختیار کر کے جمہوری سیاست پر تکیہ کر لیتی ہیں اور جمہوری سیاست سے امیدیں وابستہ کر لی جاتی ہیں کہ اس کے ذریعے اسلامی نظام کا نفاذ ہوجائے گا، نیز وہ یہ یقین کرلیتے ہیں کہ اس طرح اسلامی نظام کے احیاء کا فریضہ سر انجام دیا جارہا ہے لہذا علیحدہ سے اسلامی انقلاب کے لئے جدوجہد کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ خطرناک سوچ اسلامی   انقلاب کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے جس کو دور کیے بغیر اسلامی انقلاب ممکن نظر نہیں آتا۔
(ق )اگرتمام رکاوٹیں   ختم ہوجائیں اور دینی جماعتیں انتخابات کےذریعے اکثریت حاصل کر کے برسر اقتدار آجائیں تو وہ متعلقہ ملک کے جمہوری  دستور و آئین کی پابند ہوں گی کیونکہ وہ خود جمہوری راستے سے ایوان اقتدار تک پہنچی ہیں۔ اس صورت میں دینی سیاسی مقتدرہ کس قدر اسلامی   نظام  نافذ کر سکے گی ؟ حالانکہ دستور وآئین کی بیڑی اس کے پاؤں میں ہے جو اسے ادھر ادھر   ہلنے نہیں دیتی ۔ اگر وہ دستور وآئین سے بالاتر ہو کر اسلامی نظام نافذ کرنا چاہے گی تو اپو زیشن اسے ایسا کرنے کی اجازت نہ دےگی ، دوسری بات یہ کہ جمہوری قوتوں کے نزدیک ایسا کرنے سے  دینی مقتدرہ کے اقتدار میں رہنے کا کوئی جواز باقی نہ رہے  گا کیونکہ یہ تو جمہوریت کے بنیادی   اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔
(ف)دینی سیاسی جماعتوں میں ایک قدر مشترک یہ بھی ہے کہ انہوں نے احیاء اسلام کے لئے اسؤہ رسول اکرم اور منہج نبوی ‍ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کرنے کی بجائے باطل نظام جمہوریت کا انتخابی راستہ منتخب کیا ۔نام نہاد مغربی جمہوریت کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام ہےاور جمہوریت کا ڈھانچہ ہی ایسا ہےکہ اس میں جاگیردار ، تاجر ،سرمایہ دار، صنعت کار ، امراء، وڈیرے ،سردار ،سابق بیورو کریٹ وغیرہ ہی ایوانِ اقتدار تک پہنچ سکتے ہیں۔عام آدمی اور دولت کے انبار سے محروم شخص انتخابات  میں شرکت کے لئے کاغذات ِ نامزدگی  جمع کرانے کی فیس ادا کرنےکی استطاعت بھی نہیں رکھتا۔ چناچہ مذکورہ طبقے کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اسمبلیوں میں کیونکر پہنچ سکتا ہے ( اگرچہ بعض دفعہ عوامی طبقے میں سے بھی چند افراد سامنے آ جاتے ہیں لیکن ایسا شاذ ونادر ہوتا ہے ) کوئی قانون یا بل پاس کرانے کے لئے کم ازکم دوتہائی اکثریت کی حمایت ضروری ہے۔ سامراجی طاقتوں سے آزادی کے بعد سے آج تک جن مسلم ممالک  میں جمہوری نظام ہے، دینی جماعتوں کو مرکز میں دو تہائی اکثریت کبھی حاصل نہیں ہوئی ۔ اگر حاصل بھی ہوئی تو ان کا مینڈیٹ تسلیم کرنے سے انکار کر کے حکومت تشکیل دینے پر پاپندی لگاد ی گئی یا اسمبلیاں برخاست کردی گئیں ۔ متعدد مسلم ممالک میں دینی جماعتیں کئی دہائیوں سے انتخابات میں شریک ہو رہی ہیں جس کے نتیجے  میں چند امیدوار منتخب ہوجاتے ہیں ۔ اسلامی نظام کا خواب تو شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ، البتہ مسلسل انتخابی راستے کو اختیار کئے رکھنے اور منہج نبویﷺ کو نہ اپنانے کی وجہ سے حکومت ِ الٰہیہ کی منزل دور ہوتی جارہی ہے ۔
دینی جماعتوں کا مقصد اسلامی نظام کا احیاء ہے ۔ ہمارے اکابر اور اسلاف رحمہم اللہ نے اسی مقصدکے پیش نظر جماعتیں تشکیل دی تھیں ۔استعماری طاقتوں سے آزادی کے بعد بعض حضرات نے یہ سمجھا کہ چونکہ ملک میں جمہوری نظام رائج ہے اور دیگر سیاسی جماعتیں انتخابی  راستے سے اسمبلیوں میں پہنچ  کر اپنے مقاصد اور پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتی ہیں اور لادینی جماعتیں  خلافِ اسلام قوانین  اور پالیسیاں منظور کرانے اور ملک کو سیکولر بنانے کے لئے کوشاں ہیں ، لہٰذا ہمیں بھی اسی راستے سے اسلامی نظام کے نفاذ اور خلاف ِ اسلام سازشوں کی روک تھام کے لئے کوشش کرنی چاہیے ،چناچہ انہوں نے اسلامی نظام کے نفاذ کے مقصد کے پیش نظر انتخابی راستہ منتخب کیا جو نسبتاً آسان اور مختصر تھا ، لیکن یہی حضرات اس بات پر یقین رکھتے اور اس کا برملا اعتراف اور اظہار بھی کرتے تھے کہ اسلامی نظام کے نفاذ کا یہ اصل راستہ نہیں ہے اور اصل رستہ "اسلامی انقلابی جدوجہد" ہے ۔
یہ بات مسلم ہے کہ مقاصد اور ذرائع میں فرق ہوتا ہے ۔ مقصد کے حصول کے لئے مختلف ذرائع اور طریقے اختیار کئے جا سکتے ہیں ۔ ہمارے اکابرو اسلاف نے اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے جمہوری سیاست کو اضطرار بطور ایک ذریعے اور راستے کے اختیار کیا تھا ۔ انتخابی  سیاست میں شرکت ان کا مقصد تھا اور نہ منزل۔ انہوں نے اس راستے کو منزل مِن اللہ قرار دیا اور نہ اسے مستقل طور پر اختیار  کئے رکھنے کا کہا ۔ لیکن افسوس !بعد میں آنے والوں نے مقصد اور ذریعہ کے اس فرق کو فراموش کرتے ہوئے انتخابی راستے کو مستقل طورپر اپنا لیا اور اسی کو حصولِ مقصد کا واحد ذریعہ باور کیا جانے لگا ۔
دراصل سالہا سال کے تجربے اور مقصد کے حاصل نہ ہونے کی وجہ سے دینی جمہوری جماعتوں کی قیادت انتخابی سیاست سے خود  بھی مطمئن نہیں ہے  جس کا ان کی طرف سے وقتاً فوقتاً اظہار ہوتا رہتا ہے  اور مرکزی رہنما بھی اپنی نجی  مجلسوں میں اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ انتخابی حضرات اس راستے کو ترک کرنا چاہتے ہیں لیکن کچھ بے جا اور من گھڑت مصلحتیں آڑے آ جاتی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ انتخابی سیاست نظام ِ اسلام کے نفاذ کی راہ میں حائل ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔ کفریہ طاقتیں جمہوری نظام اور انتخابی سیاست کے ذریعے نظام ِ اسلام کا راستہ روکے ہوئی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی پوری کوشش ہے کہ مسلم ممالک میں نام نہاد جمہوری جماعتوں کو انتخابی  سیاست کے جھمیلوں میں پھنسا کر انقلابی جدوجہد کو پروان  چڑھنے سے روکا جائے ۔ جب یہی صورتِ حال ہے تو ایسے میں کیا یہ دانشمندی نہ ہوگی  کہ جب اس سے بہتر اور مناسب راستہ موجود ہے تو اسے اختیار کرکے دشمن  کی سازشوں سے بچ کر منزل ِ مقصود تک پہنچایا جائے ؟ چاہیے  تویہ تھا کہ جب  باربار کے تجربے کے بعد بھی مقصد حاصل نہیں ہورہا بلکہ اس راہ میں حیران  وسرگرداں  رہنے  کی وجہ سے منزل دور ہوتی جا رہی ہے تو اس راستے کو ترک کر کے کوئی دوسرا  ایسا راستہ اپنایا جاتا جس سے حصولِ مقصد ہوتا ۔
جمہوری راستے کو انقلابی راستے کی بنسبت  آسان اور مختصر سمجھا جاتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے  کہ کیا انقلابی راستے کو محض  اس لئے ترک کیا جائے  کہ وہ انتخابی راستے کی بنسبت  مشکل ،کٹھن اور طویل ہے اور جمہوری راستے  کو محض آسان اور مختصر ہونے کی وجہ سے اختیار کیا جائے ، چاہے یہ منزل  تک نہ  پہنچتا  ہو بلکہ اس کی وجہ سے قافلہ اصل راستے سے بھٹک کر "وادی تیہ" میں حیران و سرگردان پھرتا رہے ؟
ہمیں چاہیے  کہ ہم ایسے راستے کو ترک کر دیں  جو بظاہر سیدھا ، آسان  اور مختصر  معلوم ہوتا ہے  جبکہ درحقیقت  یہ راستہ منزل  کو جاتا ہی نہیں اور ایسی  راہ منتخب کریں  جو اگرچہ نسبتاً طویل ، کٹھن  اور مصائب  و آلام سے بھری  ہو  لیکن آخرکار اس کے ذریعے قافلہ منزل  مقصود تک پہنچ  جاتا ہو ۔ جس راستے پر کئی  دہائیوں تک چلنے  کے باوجود ہم آج بھی نقطہ آغاز پرکھڑے ہیں بلکہ ہمارے دشمن ہمیں  اس سے بھی دور لے جانا چاہتے ہیں تو کیا ہم اس کی بجائے ایسا راستہ منتخب نہ کریں جس کے ذریعے  ہم گرتے پڑتے منزلِ مقصود کو پالیں ؟
(عصر حاضر میں غلبہ دین  کا نبوی طریقہ کار  ا ز مولانا محمد زاہد اقبال  سے اقتباسات)۔ اس کتاب کو یہاں سے ڈاؤن لو ڈکیا جا سکتا ہے ۔


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی