کس کا اسلام نافذ کریں ؟ پارلیمنٹ کے بہانے کی حقیقت از حامد کمال الدین

کس کا اسلام نافذ کریں ؟ پارلیمنٹ کے بہانے کی حقیقت 

از حامد کمال الدین

حصہ اول


 دو شبہوں پہ بات کرنا ابھی باقی ہے۔
1- آیات اور احادیث کا معنی ومراد متعین کرنے کا اسلام جو انسانوں کو حق دیتا ہے، یہ پارلیمنٹ کے ’حقِ قانون سازی‘ پر کہاں تک پردہ ڈال سکتا ہے؟
2- شریعت کے بے شمار مسائل کے فہم واستنباط میں فقہائے اسلام کے ہاں جو اختلاف ہوا ہے اس کا فائدہ اٹھا کر ’سلطانیِ جمہور‘ کا رائج عام عقیدہ ثابت کردیا جانے کی کہاں تک گنجائش ہے؟
بنیادی طور پر یہ دونوں شبہے ایک ہی مغالطے سے جنم پاتے ہیں:
1- آیات واحادیث، یعنی شرعی نصوص کا معنی ومراد متعین کرنا، اور
2- شرعی مسائل کے فہم و استنباط میں فقہائے اسلام کے ہاں جو اختلاف ہوا ہے، اس میں قول راجح کا تعین کرنا۔

سوال یہ ہے کہ یہ دونوں کام کون کرے؟ ہمارے جدت پسندوں کا کہنا ہے کہ اس پر پارلیمنٹ کا حق تسلیم کر لیجئے! بلکہ ان کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کا یہ حق تو ازخود ہے۔ شرعی مسائل کے اندر پائے جانے والے ’اختلاف‘ اور ’ابہام‘ کا جو ازالہ ضروری ہے ___ اور جو کہ صرف پارلیمنٹ کر سکتی ہے! ۔۔۔۔ اس کو آپ اب اس بات کی دلیل تسلیم کیجئے کہ خدا اور رسول کے بات کر دینے کے بعد بھی بہت کچھ کہنے سننے کی گنجائش ہے اور پارلیمنٹ اگر خدا اور رسول کا فیصلہ ہو جانے کے بعد کوئی فیصلہ کرنے کا حق رکھتی ہے تو یہ کوئی بے وجہ نہیں بلکہ ’قومی وجوہات‘ کے ساتھ ساتھ اس کی بہت سی ’شرعی وجوہات‘ بھی ہیں!!

ایک غلط بات کو ثابت کرنے کیلئے آدمی ایک غلط دلیل دے تو بھی وہ کسی وقت قابل عذر مانا جا سکتا ہے مگر یہ تو ’غلط دلیل‘ کا درجہ بھی نہیں رکھتی۔ ’غلط دلیل‘ میں بھی کچھ نہ کچھ وزن ہوتا ہے۔ بے شک یہ ’حجت‘ ہمارے بعض تعلیم یافتہ اور جدت پسندوں کی جانب سے پیش کی جاتی ہے اور یہ کہتے ہوئے ہم واقعتا معذرت خواہ ہیں مگر اس کو ’غلط دلیل‘ ماننا بھی اس گمراہی کو کچھ وزن دینے کے مترادف ہے۔ ڈھکوسلہ یا ایک گمراہ کن حربہ کے سوا اس کو کوئی اور نام دیا ہی نہیں جا سکتا۔
پارلیمنٹ، جیسے ہم پیچھے کہہ آئے، دور حاضر کا ایک باقاعدہ طاغوت ہے۔ ’پارلیمنٹ کا اختیار‘ آج کی اس جاہلی دُنیا کا ایک معروف واقعہ ہے جسے یہ دُنیا ایک بدیہی مسلمہ ماننے لگی ہے۔ جاہلی دُنیا کیلئے یہ ایک مسلمہ ہے تو دوسری طرف دین اسلام میں ”اللہ اور رسول“ کا مقام بہت واضح ہے اور اسلام کی حقیقت کو جاننے والوں کے ہاں سب سے بڑا بدیہی مسلمہ کا درجہ رکھتا ہے۔ ان دونوں میں اتنا واضح تضاد ہے جو سات پردوں میں چھپائے نہ چھپے۔ ایک طرف ”اللہ اور رسول کا اختیار“ ہے جو دین اسلام میں اس قدر واضح ہے کہ کسی دلیل اور حوالے تک کا محتاج نہیں۔ دوسری طرف ’پارلیمنٹ کا اختیار‘ ایک ایسی عالمی حیثیت اور حوالہ رکھتا ہے کہ محتاج بیان نہیں۔ اپنے ’سمجھداروں‘ نے اس بعد المشرقین کو ختم اور ان دو انتہاؤں کو ایک کر دینے کا جب سے فیصلہ فرمایا ہے تب سے یہ ایک بڑے خلجان میں مبتلا ہیں۔ اب یہ سمجھ نہیں پاتے کہ ان میں ’توازن‘ کیونکر قائم کریں۔ بلکہ یوں کہیے ’توازن‘ تو یہ اپنے انداز سے قائم کئے ہوئے ہیں البتہ اس کے ’دلائل‘ دیتے ہوئے یقینا یہ ایک جھنجھلاہٹ محسوس کرتے ہیں۔
دراصل یہ ایک مکابرہ ہے مگر دُنیا کے کسی مکابر نے بھی آج تک کبھی یہ تسلیم نہیں کیا کہ اس کے پاس اپنی غلط بات کا کوئی ثبوت نہیں۔
اب ان کے سامنے سوال یہ تھا کہ پارلیمنٹ کی اس عالمی حیثیت کو بچانے اور پارلیمنٹ کے عالمی طور پر مانے جانے والے ان باطل اختیارات اور امتیازات کو برقرار رکھنے کیلئے دین اسلام میں رخنہ کہاں تلاش کیا جائے۔ بات بنے نہ بنے البتہ کہنے کیلئے ضرور کچھ پاس ہو۔ ’اللہ اور رسول‘ کا شریعت میں جو مقام ہے اس کو صاف چیلنج کرنا تو صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب آدمی سیدھا سیدھا اسلام کو ’مذہب‘ ماننے تک سے انکار کردے جو کہ اندریں حالات ممکن نہیں۔ اب آدمی ’اللہ اور رسول کے اختیار‘ کا بھی بظاہر انکار نہ کرے اور پارلیمنٹ کے عالمی طور پر (Universally)مانے گئے اختیار کو بھی عملاً برقرار رکھنا چاہے تو ان دو باتوں میں ’جمع و تطبیق‘ کی کیا صورت ہے؟
اس کی یہ صورت نکالی گئی کہ ’اللہ اور رسول‘ کا مقام تو بہت واضح ہے اور ہر شبہہ سے بالا ہے مگر ’اللہ اور رسول‘ کی بات واضح نہیں! معاذ اللہ۔ لہٰذا اللہ اور رسول نے شریعت کی زبان میں جو کوئی بات کی ہے اس کے معنی ومنشا کا تعین پارلیمنٹ کرے گی!
یعنی جس رخنے کی تلاش تھی وہ مل گیا۔ پیر رکھنے کی جگہ چاہیے تھی سو وہ مل گئی۔ اس ’دلیل‘ سے اونٹ کا سر اندر آگیا اب دیکھیے پورا اونٹ کس طرح اندر لایا جاتا ہے ۔۔۔۔
چونکہ آیات اور احادیث کے معنی ومفہومات میں ایک بڑا تنوع پایا جاتا ہے اور بسا اوقات تو بعض شرعی دلائل کے ثبوت میں ازالہَ تعارض تک کی احتیاج ہوتی ہے ۔۔۔۔ اور یہی وجہ ہے کہ فقہائے اسلام میں بے شمار شرعی مسائل کے ثبوت میں اور ان کے فہم و استنباط میں ایک بڑا اختلاف پایا گیا ہے ۔۔۔۔ اور چونکہ نصوصِ شریعت کے منشا ومفہوم کا تعین ایک انسانی عمل ہے لہٰذا پارلیمنٹ کا یہ استحقاق آپ سے آپ ثابت ہوا کہ وہ ان فقہی اختلافات کے مابین قول راجح کا تعین کرے!
اس ’دلیل‘ کا حق تو یہ تھا کہ شریعت کے جن مسائل میں فقہائے اسلام کا کبھی کوئی ’اختلاف‘ نہیں ہوا ہے اور جن مسائل میں شرعی دلائل کے اندر کہنے تک کو کوئی ’تعارض‘ نہیں ___ مثلاً سود کی حرمت یا فحاشی اور عریانی کی ممانعت وغیرہ ___ ان مسائل میں پارلیمنٹ کا ذرہ بھر اختیار تسلیم نہ کیا جاتا بلکہ ایسا اختیار روا رکھے جانے کی صورت میں سیدھا سیدھا پارلیمنٹ کو طاغوت مانا جاتا اور کم از کم ان مسائل میں اللہ اور رسول کی بات آپ سے آپ قانون کا درجہ رکھتی ۔۔۔۔ مگر نہیں۔ شریعت کے اختلافی مسائل میں پارلیمنٹ کا اختیار ثابت کرنے کا فائدہ ہی کیا۔ اصل مقصد تو پارلیمنٹ کا اختیار ’اختلافی معاملات‘ میں نہیں ’سب معاملات‘ میں ثابت کرنا تھا۔ ’شریعت کے اختلافی مسائل‘ تو اس کیلئے ایک آڑ تھی۔ یہ ’دلیل‘ ہوتی تو اختلافی مسائل تک ہی محدود رہتی مگر یہ دلیل نہیں سہارا ہے۔ حربہ ہے۔ سہارے کیلئے کچھ بھی پکڑا جا سکتا ہے۔ حربہ جو بھی چل جائے۔ آپ خود اندازہ کر لیجئے پارلیمنٹ کے اختیارات کیلئے دلیل ’اختلافی مسائل‘ کی اور ثبوت ’جملہ مسائل‘ کا!!!
ہوتے ہوتے اس ’دلیل‘ کا مدعا یہ ٹھہرا کہ چونکہ شریعت کی نصوص میں ’کہیں کہیں‘ اختلافات اور تعارض ’بھی‘ پایا جاتا ہے اس لئے شریعت کے ’سب مسائل‘ پارلیمنٹ کی منظوری کے محتاج رکھے جانے چاہئیں!!!
چنانچہ اب جو کوئی پوچھے کہ احکم الحاکمین کے ہاں سے خاتم المرسلینﷺ پر جو ایک شریعت اتری تھی وہ کیا ہوئی اور اس کی آپ کے ہاں صرف ’مذہبی‘ حیثیت ہے قانونی حیثیت وہ آپ سے آپ نہیں رکھتی بلکہ قانونی حیثیت پانے کیلئے قرآن کی ایک واضح ترین آیت کو بھی بیسیوں سال تک پارلیمنٹ کی ’منظوری‘ کی احتیاج رہتی ہے؟ تو اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ اس میں قصور پارلیمنٹ کے اختیار کا نہیں بلکہ شرعی نصوص کے اپنے ہی اندر کہیں کہیں پر ’ابہام‘ یا ’تعارض‘ یا ’اختلاف‘ پائے جانے کا جو امکان پارلیمنٹ نے کہیں سے سن رکھا ہے وہی اس بات میں مانع ہے کہ خدا کے اتارے ہوئے کو آپ سے آپ قانونی حیثیت حاصل ہو۔ لہٰذا خدا کے اتارے ہوئے کو آپ سے آپ جو حیثیت حاصل ہوگی وہ اس کی مذہبی حیثیت ہے۔ البتہ شریعت کی کسی بات کا قانون ہونا ___ قطع نظر اس کے کہ وہ اپنے ثبوت اور اپنی دلالت میں کتنی بھی واضح اور قطعی ہے ___ پارلیمنٹ کے فیصلے پر موقوف ہے!

شرعی نصوص میں ’ابہام‘ اور ’تعارض‘ اور ’اختلاف‘ !!!


گویا اس مسئلہ کا سامنا پہلی بار بس ہمیں ہی ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ صحابہ کے ہاں ما انزل اللہ کی کیا حیثیت تھی؟ شرعی نصوص کے اندر جو ’ابہام‘ یا ’تعارض‘ یا ’اختلاف‘ آج ہمیں نظر آتا ہے کیا وہ آج ہی جا کر پیدا ہوا ہے؟ اور کیا اس ’ابہام‘ یا ’تعارض‘ یا ’اختلاف‘ کے باعث صحابہؓ کے ہاں بھی ایسا ہی تھا کہ ما انزل اللہ کو صرف ’مذہبی تقدس‘ ہی حاصل ہو البتہ قانونی حیثیت پانے کیلئے اس ما انزل اللہ کو کسی اور ہستی یا مجلس یا ہاؤس کی منظوری کا محتاج ہونا پڑے؟!
حتی کہ ایک صحابہؓ کے دور پر ہی کیا موقوف، اموی اور عباسی دور خلافت تک دیکھ لیجئے جو کہ یقینا اسلام کے مثالی ادوار نہیں۔ حکمرانوں کی دھونس اور دھاندلی اور لاقانونیت اور شخصی تجاوزات ومظالم کو ایک طرف رکھ دیجئے قانون عام جس کی عدالتیں پابند ہوا کرتی تھیں اور جس کے مطابق رعایا کے مابین فیصلہ کرنے کے قاضی مکلف ہوا کرتے تھے، کیا تھا؟ اسلام کے ان سب ادوار میں کیا واقعتا ما انزل اللہ کو بس صرف ’مذہبی تقدس‘ حاصل ہوتا تھا اور جب تک کسی مخلوق کی طرف سے ’پاس‘ نہ کردیاجائے تب تک وہ ہر قسم کی قانونی حیثیت سے یکسر محروم رہتا تھا؟؟؟
اسلام کے ان تمام ادوار میں مسلم معاشروں کے اندر ما انزل اللہ کی ’مذہبی‘ اور ’قانونی‘ حیثیت میں کبھی بھی تمیز نہیں کی گئی۔ ایک چیز شریعت سے اگر واضح نہیں یا کسی چیز کا ثبوت اگر شریعت سے نہیں ملتا تو وہ ’مذہبی تقدس‘ بھی نہ پاتی تھی مگر جب وہ ’مذہبی تقدس‘ پالیتی تھی تو اس کی قانونی حیثیت خودبخود مسلم ہوتی تھی۔ ان دو باتوں میں تفریق صرف اسی دن کی گئی جس دن ہمارے معاشروں کو سیکولرزم کی اوپر تلے خوراکیں دی گئیں اور ان معاشروں کی تشکیل مغرب کے دیے ہوئے نقشے پر کرنے کی بنیاد ڈالی گئی۔
رہا یہ کہ ما انزل اللہ کا معنی ومراد اور منشا ومفہوم کا تعین ضروری ہے تو یقینا صحابہؓ کا معاشرہ اور اموی اور عباسی دو رکے معاشرے ما انزل اللہ کا منشا ومراد متعین کئے بغیر ہی اس پر عمل پیرا نہیں ہو جایا کرتے تھے۔ مگر ہمارے اور ان کے ’نظام‘ میں فرق یہ ہے کہ وہ ما انزل اللہ کا صرف معنی ومراد اور منشا ومفہوم متعین کرتے تھے اور اس کا ___ علمی بنیادوں پر اور علمی مصادر سے___ جو معنی ومراد متعین ہو جائے اس پر ایمان لانا اور اس پر سَمِعنَا وَاَطَعنَا کہنا ان کے ہاں آپ سے آپ لازم ہو جاتا تھا۔ یہی اُن کا آئین تھا اور یہی طرز عمل ’اسلام‘ کہلاتا ہے ۔۔۔۔ البتہ ہمارا نظام اس کو باقاعدہ ’پاس‘ ہونے کا ضرورت مند جانتا ہے اور اگر یہ اس کو ’پاس‘ نہ کرے تو ما انزل اللہ چاہے کتنا بھی واضح ہو بس ’مذہب‘ ہوتا ہے ’قانون‘ نہیں!
ما اَنزل اللہ کو قانون مانتے ہوئے اس کا معنی ومراد متعین کرنا ایک بات ہے اور ما انزل اللہ کا ___ قانون مانا جانے کیلئے ___ پارلیمنٹ کے ہاتھوں ’پاس‘ ہونے کا محتاج رہنا بالکل ایک الگ بات۔ یہ واضح طور پر دو مختلف واقعے ہیں۔ دو مختلف اور متضاد طرز عمل ہیں۔ اس قدر مختلف ہیں کہ ان میں ایک بعد المشرقین ہے۔ مگر دیکھ لیجئے ہمارے یہاں کیسا خلط مبحث ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خلط مبحث کسی علمی یا فنی نکتے کے روپوش ہو جانے کے باعث نہیں بلکہ ایمان اور تسلیم کی حقیقت واضح نہ ہونے کے باعث ہے۔ کاش کہ یہ لوگ جانتے کہ آسمان سے رسول پر جو نازل ہوتا ہے، جس وحی کیلئے آسمان کے دروازے کھلتے ہیں اور جس وحی کو دے کر زمین کی جانب فرشتے دوڑائے جاتے ہیں اور جس کیلئے رسول کی بعثت عمل میں لائی جاتی ہے اور جس کے آگے سرتسلیم خم کرنے پر جنت اور جہنم کا فیصلہ ہونا ہے وہ کتنی بڑی حقیقت ہے اور اس کا کیا مرتبہ اور مقام ہے۔
جہاں تک کسی معاملہ میں ما انزل اللہ کا معنی ومراد متعین کرنے کی بات ہے تو یہ عشروں اور صدیوں کا کام نہیں۔ انما شفاءالعی السؤال (1) اہل علم سے رجوع اس مسئلہ کا بہت سادہ اور آسان حل ہے۔ مگر جہاں تک ما انزل اللہ کو (معاذ اللہ) ’پاس‘ کرنے کا تعلق ہے تو اس کا حساب ضرور عشروں اور صدیوں میں کیا جا سکتا ہے۔ ہمارا مسئلہ دراصل یہی ہے۔
اللہ اور رسول کی بات کو قانون مانتے ہوئے اس کا معنی ومراد سمجھنا ایک خوئے بندگانہ ہے۔ البتہ اللہ اور رسول کی بات کو ’منظوری‘ دینے کا مجاز ہونا ایک سرکش فعل۔
اللہ اور رسول کی بات کا منشا ومراد متعین کرنے میں غلطی تک کا ہو جانا ___ بشرطیکہ غلطی کرنے والا اجتہاد کی اہلیت رکھتا ہو ___ معاف ہے بلکہ ایسی غلطی پر بھی وہ ایک نیکی پانے کا حق رکھتا ہے ۔۔۔۔ مگر اللہ اور رسول کی بات کو ’پاس‘ کرنا ایک بالکل مختلف طرز عمل ہے جس کا کہ تسلیم وانقیاد اور اذعان و اطاعت سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں۔
ما انزل اللہ کا منشا ومراد جاننا ایک ایمانی رویہ اور ایک فرماں بردارانہ طرز عمل ہے۔ البتہ اس کو منظوری دینے یا نہ دینے کا حق رکھنا ایک خدائی طرز عمل۔ اس خدائی طرز عمل رکھنے کا نام ہی شرعی اصطلاح کی رو سے ’طاغوت‘ ہونا ہے۔ ورنہ شرعی نصوص کا معنی ومراد متعین کرنے پراعتراض ہی کس نے کیا ہے!؟

جس چیز میں غلطی کا ہو جانا خدا کی طرف سے معاف ہے بلکہ اس غلطی پر آدمی کو ___ بشرطیکہ وہ اجتہاد کی اہلیت رکھتا ہو ___ ایک نیکی ملنے تک کا وعدہ ہے اور درستی ہونے پر دو نیکیوں کا ۔۔۔۔ اس چیز میں اختلاف پھر حرام کیونکر ہو سکتا ہے؟ یہاں سے شرعی نصوص کے فہم و استنباط اور اثبات و استشہاد میں اختلاف ہو جانے کی بھی پوری گنجائش نکلتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شرعی نصوص کے فہم و استنباط میں صحابہؓ کے اندر اختلاف ہوا۔ بعد کے ادوار میں بھی فقہاءکے مابین اختلاف رہا مگر یہ کبھی بھی اس بات کی دلیل نہ بنی کہ اب اس امر کے باعث شریعت کو ’قانونی حیثیت‘ سے ہاتھ دھونے پڑ جائیں ۔۔۔۔ اور یہ کہ اس بنا پر شریعت کو صرف ’مذہبی تقدس‘ پر ہی گزارا کروایا جائے!!! اِس بات کا اُس بات سے کیا تعلق!؟ یہ تو سیکولرزم کی دین ہے اور یہی اصل آفت۔

صحابہ اور بعد کے ادوار میں شریعت کی نصوص کا معنی و مراد متعین کرنے کی بھی ضرورت مانی گئی اور شریعت کے منشا ومراد کے تعین میں ان کے مابین کہیں کہیں آپس میں اختلاف آراءبھی ہوا اور بحث بھی ہوئی اس کے باوجود اللہ کی شریعت کے سوا ان کے ہاں کوئی قانون نہ تھا۔ جب یہ طے ہو کہ اللہ اور رسول کی بات کے سوا کوئی چیز قانون نہیں تو اللہ اور رسول کی بات کی منشا متعین کرنے میں کچھ بھی وقت نہیں لگتا۔ صحابہ نے یہ بات طے کر لی تھی۔ بلکہ یہ طے کرکے ہی وہ مسلمان ہوئے تھے۔ مسلم معاشرے اس کے بعد بھی صدیوں تک ’قانون‘ کے نام سے صرف ایک ہی چیز سے واقف رہے اور وہ تھی شریعتِ اسلام۔ شریعت کی خلاف ورزی جب کبھی حکمرانوں کی طرف سے ہوتی تھی اور جن معاملات میں ہوتی تھی وہ ’لاقانونیت‘ کے زمرے میں آتے تھے۔ ’لاقانونیت‘ (قانونِ شریعت کی خلاف ورزی) محض فسق ہے البتہ شریعت سے متصادم کسی بات کا بجائے خود ’قانون‘ ہونا کھلا کھلا کفر۔
پس حضرات! یہ تو بہت سادہ مسئلہ ہے۔ اگر آپ اس پر ایمان لے آتے ہیں کہ قانون صرف وہ ہے جو مالک الملک کے ہاں سے محمدﷺ پر نازل ہوا، اور یہ کہ اس کے سوا کوئی چیز ’قانون‘ ہو ہی نہیں سکتی اور نہ اس کے سوا کسی چیز کی رو سے آپ کی عدالتیں فیصلہ کر سکتی ہیں۔۔۔۔ تو پھر اللہ اور رسول کی بات کی منشا متعین کرنے پر تو کچھ بھی وقت نہیں لگتا۔ یہ تو دو منٹ کا کام ہے۔ پارلیمنٹ میں آپ کی بحثیں اس سے کہیں زیادہ وقت لیں گی جتنا وقت آپ کو وقت کے علمائے مجتہدین سے کسی معاملے میں اللہ اور رسول کی بات کی منشا و مراد دریافت کرنے میں لگے گا!
٭٭٭٭٭
شرعی نصوص میں ’ابہام‘ یا ’تعارض‘ کا دعوی اس بات کی دلیل بنے کہ شریعت ’مذہب‘ تو آپ سے آپ ہو البتہ ’قانون‘ نہیں ۔۔۔۔ ایسے حربے صرف ان معاشروں میں کامیاب ہوتے ہیں جن پر ’اسلام‘ اور ’بندگی‘ کی حقیقت واضح نہ ہو۔
لے دے کر بات یہیں پر آجاتی ہے کہ اپنے یہاں آپ کو اسلام شناس معاشرے کھڑے کرنے پر محنت کرنا ہوگی۔ اسلام شناس معاشرے جو اللہ اور رسول کا حق جانیں۔ اللہ اور رسول کا ’حق‘ جاننے کے بعد ہی دوسروں کا ’ناحق‘ سمجھ آسکتا ہے۔ جہاں تک حکمرانوں کے شخصی تجاوزات اور بالائے قانون اقدامات اور ان کے آمرانہ رویوں کی بات ہے تو وہ اسلام شناس معاشروں میں بھی واقع ہو جاتے رہے ہیں البتہ باطل کو ’دلائل‘ سے ثابت کرنے کا واقعہ اسلام شناس معاشروں میں کبھی پذیرائی نہیں پا سکتا۔
البتہ جس معاشرے میں باطل کو ’دلائل‘ ملنے لگیں، سمجھ لیجئے اس کی تشکیل یا اس کی تعمیر میں کوئی بڑا رَخنہ آچکا ہے۔ اسلامی تحریکوں کیلئے کرنے کا کام تب بہت واضح ہو جانا چاہیے۔ بصورت دیگر آپ ایک ’دلیل‘ سے نکل کر دوسری میں پڑیں گے اور دوسری سے فارغ ہوئے بغیر کوئی تیسری ’دلیل‘ آپ کی منتظر ہو گی۔ تب باطل کے جسم پر جا بجا ’دلائل‘ نمودار ہو جائیں گے اور ان کو ’چھیڑنا‘ جراَت اور بے دردی کا کام سمجھا جائے گا۔
معاشرے کو عقیدہ کی تعلیم دینا بہت سے مسائل کا حل ہے!!!
٭٭٭٭٭
یہاں اب کچھ اصولی مباحث کا واضح کر دیا جانا ضروری ہو جاتا ہے۔۔۔۔ آسانیِ مبحث کیلئے ہم اس گفتگو کو دو حصوںمیں تقسیم کر لیتے ہیں۔
1) شریعت کا ایک بنیادی حصہ وہ ہے جو اپنی دلالت اور ثبوت میں قطعی ہے اور جس میں فقہاءکے مابین کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ کسی نظام کو اگر اللہ اور رسول پر ایمان رکھنے کا دعوی ہے تو شریعت کا یہ حصہ تو کسی بھی اضافی وضاحت کے بغیر آپ سے آپ ’قانون‘ ہے اور اس سے متصادم ہر چیز آپ سے آپ ’لاقانون‘ اور کالعدم۔
شریعت کے اس حصہ کو معلوم من الدین بالضرورہ کہا جاتا ہے۔ اختصار کیلئے، ان کو ”ضروریاتِ دین“ بھی کہتے ہیں۔ یعنی وہ امور جن کا ”دینِ اسلام“ ہونا ہر کسی کو لازماً معلوم ہونا لازمی ہے۔ مثلاً نماز، روزہ، زکوٰة اور حج وغیرہ کی فرضیت۔ جہاد اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا وجوب۔ چوری، زنا یا شراب خوری وغیرہ پر حد کا واجب ہونا۔ قصاص اور دیت وغیرہ کا فرض ہونا۔ شرک، سود، جوا (لاٹری) فحاشی، عریانی اور بے حیائی کی حرمت۔ کفار سے دوستی و تحالف اور کافرانہ تہذیب کے نشر واشاعت اور باطل نظریوں اور عقیدوں کی تعلیم عام کرنے کی حرمت وغیرہ وغیرہ۔
شریعت کا یہ پہلو جو اپنے ثبوت اور اپنی دلالت حتی کہ اپنے معلوم و زبان زدِ عام ہونے میں بے انتہا واضح ہے ___ چاہے قانون کی زبان میں لکھا گیا ہو یا نہ لکھا گیا ہو___ آپ سے آپ دستور ہے ۔ ہر آئین سے بڑا آئین ہے۔ سود کا حرام ہونا کسے معلوم نہیں؟ شراب کی حرمت سے کون ناواقف ہے؟ عورتوں کا بے حیا رقص اور فحش ڈانس جس پر مبنی پروگرام، فلمیں، سینما، ٹی وی، تھیٹر ہر طرف دیکھے جا سکتے ہیں ۔۔۔۔ ان سب کی حرمت اور شناعت سے کون لاعلم ہے؟
یہ ضروریاتِ دین اور مسلماتِ شریعت، ’لکھی ہوئی‘ حالت میں ہوں یا نہ ہوں، آپ سے آپ آئین بھی ہیں اور قانون بھی۔ یہ ہر آئین سے بڑا آئین ہیں اور ہر قانون سے بڑا قانون۔ کئی ایک ملک آج بھی ایسے ہیں جہاں دستور کے بنیادی مسائل باقاعدہ لکھی ہوئی صورت میں نہیں ملتے مگر ان کی کچھ ایسی مسلمہ حیثیت مان لی جاتی ہے کہ وہ ان کے نظام کی اساس شمار ہوتے ہیں۔ شریعت کے یہ بنیادی مسائل جن کو اصطلاحی زبان میں معلوم من الدین بالضرورة کہا جاتا ہے، اور جن کی کچھ مثالیں ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں ۔۔۔۔ شریعت کے یہ بنیادی مسائل ___ قانونی انداز میں لکھے جائیں تب اور اگر نہ لکھے جائیں تب ___ ہر قانون سے بڑا قانون ہیں اور ہر دستور سے بڑا دستور بشرطیکہ آپ کا نظام مسلم یعنی ’فرماں بردار‘ ہو۔
کسی نظام کے ’مسلم‘ یعنی ’فرماں بردار‘ ہونے کی ترتیب بھی واضح ہو:
شریعت کے محکم اور بنیادی مسلمات کا آپ سے آپ قانون تسلیم ہونا ہی وہ چیز ہے جو آپ کے نظام کو ’مسلم‘ کہلانے کا حق دے گا۔ یعنی یہ آپ کا نظام نہیں جو شریعت کے مسلمات کو ’قانونی اسٹیٹس‘ عطا کرے بلکہ یہ شریعت کے مسلمات کا آپ سے آپ قانون تسلیم ہونا ہے جو آپ کے نظام کو ’مسلم‘ ہونے کی سند دے گا۔

ان دو باتوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ شریعت کے کسی حکم کو ’پاس‘ کرنے کی نوبت اسی فرق کے روپوش ہو جانے سے آتی ہے۔ ’پاس‘ کرنے کامطلب ہی یہ ہے کہ شریعت کے مسلمات کا قانون ہونا تاحال مسلَّم نہیں۔ یعنی دراصل آپ کا نظام ابھی ’فرماں بردار‘ نہیں۔ شریعت کے محکمات اور مسلمات کو اپنی آسانی کیلئے آپ جیسے چاہیں اور جس زبان میں چاہیں اور جتنی بار چاہیں لکھ لیں۔ اس پر کسی کو کیا اعتراض۔ البتہ شریعت کی یہ حیثیت تسلیم کرنا مسلمان ہونے کیلئے شرط ہے کہ شریعت کے یہ محکمات آپ کے لکھنے سے پہلے قانون ہیں۔ جب سے یہ آسمان سے نازل ہوئے اور نبی ﷺ کی زبان سے ادا ہوئے تب سے قانون ہیں۔ شرعی مسلمات کی اس حیثیت کو مان کر ہی آپ مسلمان ہوتے ہیں۔ پہلے سے جو بات قانون ہے، پتھر پر لکیر ہے، اس کو منظوری دینے کا پھر اب کیا سوال؟ ایک پاس شدہ چیز کو پاس کون کرتا ہے۔ شریعت کے مسلمات خدا کی مقرر کردہ حدیں ہیں، یعنی حدود اللہ۔ ان کو خدا نے پاس کیا ہے۔ آپ اس کی ’منظوری‘ نہیں دیں گے۔ شریعت کے بعض قوانین کی ’منظوری‘ تو یہاں انگریز بھی دے لیتے رہے ہیں۔ آپ کے دعوائے ایمان کا ثبوت یہ نہیں کہ آپ بھی شریعت کے ان مسلمات کو ’منظور‘ کرتے پھریں۔ قانون تو یہ چودہ سو سال پہلے سے ہے بشرطیکہ آپ مسلمان ہیں۔ اس کی ’منظوری‘ کا وقت کبھی نہیں آئے گا البتہ ”اعلانِ فرماں برداری“ کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔! اس کی حد یہ ہے کہ یا روح حلق میں اٹک جائے، جوکہ کسی بھی وقت ہو سکتا ہے، یا سورج مغرب سے چڑھ آئے، جس کا ایک وقت متعین ہے ۔۔۔۔

وَقُل لِّلَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ وَالأُمِّيِّينَ أَأَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُواْ فَقَدِ اهْتَدَواْ وَّإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاَغُ وَاللّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ  (آل عمران: 20)
”پھر اہل کتاب اور (غیر اہل کتاب) امیوں دونوں سے پوچھو: ”کیا تم بھی اس کی اطاعت وبندگی قبول کر چکے؟“ اگر کر چکے تو وہ راہ راست پا گئے، اور اگر اس سے منہ موڑا تو تجھ پر صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری تھی۔ آگے اللہ خود اپنے بندوں کے معاملات دیکھنے والا ہے“۔
اس ترتیب کے واضح ہو جانے سے اگلی بات خودبخود واضح ہو جاتی ہے: بجائے اس کے کہ خدا کے اتارے ہوئے قطعی حلال وحرام اور اس کی ٹھہرائی ہوئی محکم بَیِّن حدیں ___ قانون کا رتبہ پانے کیلئے ___ کسی انسانی نظام سے منظوری پانے کی محتاج ہوں ۔۔۔۔ اصل ترتیب یہ ہو گی کہ آپ کا وہ نظام ہی___ مسلم قرار پانے کیلئے ___ دین کے ان مسلّمات اور قطعیات کو حتمی قانون ماننے کا ضرورت مند ہو۔ چنانچہ سوال مسلّمات دین میں سے کسی بات کے قانون ہونے یا نہ ہونے کا نہیں رہے گا بلکہ سوال اس نظام کے مسلم (فرماں بردار) ہونے یا نہ ہونے کا اٹھے گا۔ اس سوال کا درست ہو جانا سمجھ لیجئے آدھا کام ہو جانا ہے۔ کیا خیال ہے اگر آپ کا معاشرہ آپ کے نظام کو اس بنیاد پر پرکھنے لگے؟
ہمارے معاشرے توحید کی اس حقیقت کو سمجھ لیں تو وہ اپنے نظام سے سوال یہ نہیں کریں گے کہ وہ شریعت کو کب ’پاس‘ کرتا ہے بلکہ یہ سوال وہ پنے برسراقتدار طبقوں سے یوں کریں گے کہ ان کا یہ نظام شریعت کے مسلمات کو بدیہی قانون و بالاترین آئین مان کر مسلمان کب ہوتا ہے؟ تب وہ سوال اس طرح نہیں رکھیں گے کہ شریعت کے کسی معلوم حکم کو ’منظوری‘ ملی یا نہیں بلکہ یہ سوال وہ یوں کریں گے کہ شریعت کے ہر معلوم اور معروف حکم کو حتمی قانون تسلیم کرکے یہ نظام مسلمان ہوا یا ابھی اپنے کفر پر ہی مصر ہے۔
”حاکم اعلیٰ“ یعنی اَحکم الحاکمین ایک چیز کو واضح ترین اندازمیں حرام کر دے ۔۔۔۔ اس کی حرمت میں کسی کو ابہام تک نہ رہے ۔۔۔۔ اس کی حرمت کی بابت کسی محدث یا فقیہ نے آج تک کبھی کوئی کلام نہ کیا ہو ۔۔۔۔ حاکم کیا محکوم، عوام کیا خواص، ان پڑھ کیا پڑھے لکھے سب جانتے ہوں کہ ”حاکم اعلیٰ“ نے ایک بات کو بڑی سختی سے حرام ٹھہرایا ہے حتی کہ اس کو اپنے اور اپنے رسول کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا ہے ۔۔۔۔ یعنی ’مذہب‘ میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ۔۔۔۔ پھر بھی وہ بات ’قانونا‘ جائز ہو، سوچئے تو سہی اس کا مطلب کیا ہے؟
یعنی ’مذہبی‘ طور پر ایک چیز کا ”ناجائز“ ہونا ہر شبہ سے بالاتر ہو مگر ’قانونی‘ طور پر اسی چیز کا ”جائز“ ہونا ہر شبہ سے بالاتر ہو!!!!! یہ واقعہ اسی چیز کو تو ثابت کرتا ہے کہ مسئلہ ”حاکم اعلیٰ“ کی بات واضح ہونے کا نہیں بلکہ مسئلہ ”حاکم اعلیٰ“ کی حیثیت واضح ہونے کا ہے۔ پس مسئلہ اِس نظام کے یہاں فرمانِ رب العالمین کی حیثیت واضح ہونے کا ہے نہ کہ فرمانِ رب العالمین کی مراد واضح ہونے کا۔
’حاکم اعلیٰ‘ کے نام سے یہ نظام کسی لقب (Title) سے تو ضرور واقف ہے مگر ’حاکم اعلیٰ‘ کے نام سے یہ کسی خدائے مالک الملک سے آگاہ نہیں، جس کے قول کی ہیبت سے فرشتے ہول کھاتے ہیں٭۔
چنانچہ شرعی نصوص کے حوالے سے جس ’ابہام‘ یا ’اختلاف‘ کا ہوّا دکھایا جاتا ہے اس کا مقصد تو بس یہ ہے کہ لوگ اسی بحث میں الجھ کر رہ جائیں کہ شرعی نصوص تو واضح ہی نہیں! یوں اس نظام پر کی جانے والی تنقید بس یہیں پر اٹک کر رہ جائے اور اندر اس کا کفر پوری طرح بچا رہے۔ لوگ اس کی اس ’جحت‘ سے گزر کر اس سے یہ پوچھ ہی نہ سکیں کہ اچھا جہاں ”حاکم اعلیٰ“ کی بات میں کہنے تک کو تم کوئی ’ابہام‘ یا ’اختلافِ فقہاء‘ نہیں پاتے وہاں ”حاکم اعلیٰ“ کے فرمائے ہوئے کے ساتھ تمہارا کیا طرز عمل ہوتا ہے؟ اس سوال پر یہ لوگ آپ کو کبھی بھی نہ آنے دیں گے۔
2) شرعی احکام کا دوسرا حصہ وہ ہے جو استنباط اور استدلال پر مبنی ہے۔ متعدد احکام ایسے ہیں کہ ایک آیت یا حدیث سے مسئلہ اخذ کرنے کے معاملہ میں فقہاءکے مابین اختلاف ہوا ہے۔ حتی کہ بہت سی احادیث کی تصحیح اور تضعیف اور ترجیح میں محدثین کے ہاں اختلاف پایا گیا ہے۔ اس کی بنا پر شریعت کی بہت سی تفصیلات میں اہل علم کے ہاں تعدد آراءکا پایا جانا ایک معروف واقعہ ہے۔
حتی کہ شریعت کے مسلمات ومتفق علیہ امور ___ مانند نماز، زکوٰة، روزہ وحج ایسے فرائض علاوہ ازیں سود، جوا اور شراب وغیرہ ایسے محرمات ___ کی بہت سی جزوی تفصیلات بھی اسی زمرے میں آتی ہیں۔
تو کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ ان مسائل میں، جن میں فقہاءیا محدثین کے مابین اختلاف ہوا ہے، آپ جو چاہیں کر لیں؟ اور کیا ان اختلافات کا ’نبیڑا‘ کوئی بھی کر سکتا ہے؟ حتی کہ پارلیمنٹ بھی ان کی بابت ’اظہار رائے‘ کر سکتی ہے؟ اور ’قول راجح‘ بلکہ ’قول فیصل‘ بھی صادر کر سکتی ہے؟ یا ان مسائل کے طے کرنے میں بھی شریعت کے کچھ ضابطے ہیں؟
شریعت بذات خود ایک ضابطے کا نام ہے۔ پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کے اپنے ہی معاملات کسی قاعدے ضابطے کے بغیر چھوڑ دیئے گئے ہوں!؟
خدا نے اپنے بندوں کی ہدایت کیلئے جو کچھ اُتارا ہے اور رسول نے اس کی وضاحت میں جو کچھ ’بیان‘ کیا ہے ___ چاہے یہ اس کا وہ حصہ ہو جو تمام اہل علم کے ہاں مسلّم اورمتفق علیہ ہے اور چاہے یہ اس کا وہ پہلو ہوجس کے سمجھے جانے میں اہل علم کے ہاں تعدد آراءہوا ہے ___ اس سارے کے سارے کی اطاعت ہی بندوں پر اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اندر فرض ہے اور اس کو واجب اطاعت جاننا ایمان دار ہونے کی شرط۔
خدا نے جو ’اتارا‘ اور رسول نے جو ’بیان‘ کیا اس کی اطاعت اس کو جاننے اور اس کی مراد پانے کے بغیر ممکن نہیں۔ البتہ اس کو جاننے کی بابت انسانوں کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ انسانوں کو ان دو قسموں میں اس معاملہ کی بابت خود قرآن نے ہی تقسیم کیا ہے۔ ایک ’جاننے والے‘ اور ایک ’پوچھنے والے‘:
فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (النحل: 43)
”اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے“۔
چنانچہ ایک انسان اللہ کے دین کو جاننے کی بابت یا تو ’أَهْلَ الذِّكْرِ‘ (یعنی بتانے والوں) میں شمار ہوگا اور یا پھر’ لاَ تَعْلَمُونَ‘ (یعنی پوچھنے والوں) میں۔ ثانی الذکر پر قرآن ہی کی جانب سے یہ فرض عائد ہو جاتا ہے کہ وہ ’أَهْلَ الذِّكْرِ‘ کے پاس یہ پوچھنے آئیں کہ کسی معاملے کی بابت خدا نے کیا اتارا ہے اور رسول نے کیا بیان کیا ہے؟
اب پارلیمنٹ کے وہ اختیارات جو اس کیلئے موجودہ دور میں عالمی طور پر تسلیم کئے گئے ہیں اور جن کی بنا پر وہ خدا کی ہم سر قرار پاتی ہے اس کے یہ اختیارات ایک لمحہ کیلئے نظر انداز کر دیں اور اس کو ذرا دیر کیلئے خدا کے اتارے ہوئے اور رسول کے بیان کئے ہوئے کے سامنے کھڑا کر دیں ۔۔۔۔ یہ طے کرنے پر آپ کو کتنا وقت لگے کہ اس (شریعت) کو جاننے کی بابت پارلیمنٹ ’أَهْلَ الذِّكْرِ‘ (یعنی بتانے والوں) میں شمار ہوتی ہے یا’لاَ تَعْلَمُونَ‘ (یعنی پوچھنے والوں) میں؟ قرآن کی اس تقسیم کی رو سے پارلیمنٹ کو جہاں کھڑا کیا جانا بنتا ہے اس کو وہیں کھڑا ہونا پڑے گا۔ اس تقسیم کی رو سے پارلیمنٹ کو، خدا کے کسی بھی فرماں بردار انسان کی طرح، اہل علم سے رجوع کرنا ہوگا اور ایک خوئے بندگی رکھتے ہوئے دریافت کرنا ہوگا کہ کسی مسئلے کی بابت خدا اور رسول کی کیا منشا ہے ۔۔۔۔ اِلا یہ کہ پارلیمنٹ خدا کی فرماں برداری پر تیار نہ ہو اور خدا کی بجائے خود قانون صادر کرکے اپنی فرماں برداری کرائے۔
پس شریعت کے طے شدہ معاملات اور متفق علیہ مسلمات کا مسئلہ تو رہا ایک طرف؛ ان کی بابت تو کسی کا خیر اختیار ہی کیسا، وہ مسائل بھی جن کے اثبات یا استنباط میں کہیں کوئی اختلاف ہوا ہے وہاں بھی ’پارلیمنٹ‘ کا البتہ اختیار کیسا؟ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ ۔ کل اختیار خدا کا ہے اور خدا کی بات کا مطلب اور مفہوم متعین کرنے والے اہل علم ہیں نہ کہ وہ جو ’لاَ تَعْلَمُونَ‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔
ہاں اگر پارلیمنٹ کی رکنیت پانے کیلئے آپ نے علم شریعت رکھنے کی شرط لگا رکھی ہے (علم شریعت اس پائے کا جو مہمات دین میں استنباط مسائل کیلئے کفایت کرے) تو وہ ایک اور بات ہے (ہم یہاں اس کا مطالبہ بہرحال نہیں کر رہے!) مگر جب ایسا نہیں تو پھر آپ کی پارلیمنٹ کو ___ اگر وہ ایمان کا دعویٰ رکھتی ہے ___ شریعت کا علم رکھنے والوں سے یہ دریافت کرنا ہے کہ کسی معاملے میں خدا اور رسول کی منشا کیا قرار پاتی ہے۔ البتہ اگر وہ انسانی زندگی کے کسی مسئلے کی بابت اپنی چلانے کا کسی بھی انداز سے اختیار رکھتی ہے ___ چاہے وہ دین کے متفق علیہ مسلمات ہوں یا اختلافی مسائل ___ اور کون نہیں جانتا کہ موجودہ نظام میں پارلیمنٹ یہ حق رکھتی ہے تو پھر پارلیمنٹ کے خدا کا شریک ہونے میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے؟
رہی یہ بات کہ فقہی اقوال وآراءمیں اختلاف دکھا کر ’پارلیمنٹ کا اختیار‘ ثابت کر دیا جائے ۔۔۔۔ تو اتنا اندھیرا کر دینے کی اپنے دین میں ہرگز گنجائش نہیں۔ آپ اندھیرا کرنا ہی چاہتے ہیں تو اس میں آپ کو دین اور شرعی دلائل سے مدد لینے کی ضرورت نہیں۔
چنانچہ پارلیمنٹ یا کوئی بھی برسراقتدار مخلوق جب اہل علم سے یہ پوچھے گی کہ کسی معاملے میں خدا اور رسول کی منشاءومراد کیا بنتی ہے تو وہ اپنے حق تشریع سے دستبردار ہوتے ہوئے یہ پوچھے گی اور اس کو ___ بااعتماد اہل علم کی جانب سے ___ خدا اور رسول کے حوالے سے جو بات بتائی جائے گی وہ اس کو ماننے کی پابند بھی ہوگی ورنہ خدا اور رسول کی منشا ومراد پوچھنے کا کوئی مطلب ہی نہیں رہ جاتا۔ چنانچہ خدا اور رسول کی بات ___ چاہے وہ نص ہو یا استنباط کی راہ سے اخذ کی گئی ہو ___ جب اس کو معتمد اہل علم کی جانب سے بتائی جائے گی تو اس کی ’مذہبی‘ و ’قانونی‘ حیثیت آپ سے آپ مسلم ہوگی۔
حتی کہ کسی استنباطی یا اجتہادی مسئلہ میں ___ نہ کہ دین کے مسلمات میں___ اہل علم اگر اپنی اختیار کردہ رائے کے اندر کسی وقت (دلیل کی روشنی میں) کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس کریں تو یہ طے کرنا بھی اہل علم ہی کا کام ہوگا۔ غیر اہل علم ___ چاہے وہ پارلیمنٹ ہو یا کوئی اور برسراقتدار مخلوق___ پھر بھی اس معاملہ میں کوئی اختیار نہ رکھے گی۔
بلاشبہ مصالح العباد کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جس میں دین کی جانب سے آپ کو آزادی دی جائے گی کہ آپ اپنی ضرورت اور اپنی صورتحال کو پیش نظر رکھ کر کوئی سا بھی ضابطہ اور قانون بنا لیں۔ مگر اس کا علم بھی آپ کو اہل علم کی وساطت سے ہوگا۔ اس کا فیصلہ بھی آپ خود نہیں کریں گے کہ کہاں آپ کو کوئی ضابطہ یا قانون بنانے کی آزادی ہے اور کہاں نہیں۔ البتہ جہاں اہل علم کی وساطت سے آپ کو معلوم ہو جائے کہ آپ کچھ ’پاس‘ کرنے میں شریعت کی طرف سے آزاد ہیں وہاں واقعی آپ پر کوئی قدغن نہ ہوگی۔ خواہ آپ پارلیمنٹ کہلاتے ہیں یا کوئی اور مقتدر قوت۔
یوں شریعت آپ کی آزادی کا جو دائرہ مقرر کرے گی وہ بھی کوئی چھوٹا نہیں۔ البتہ شریعت سے ___ بوساطت اہل علم ___ آپ کو برابر پوچھتے رہنا پڑے گا کہ آپ کی آزادی کہاں تک ہے اور کہاں آپ کی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔
٭٭٭٭٭
یوں شریعت کے معروف مسائل اور دین کے واضح حلال وحرام اور اللہ کی مقرر کردہ واضح حدیں ___ جن کو ہم نے شرعی مسلّمات کانام دیا ہے اور جن کی کچھ مثالیں پیچھے گزر گئی ہیں ___ خودبخود مسلم معاشرے پر واضح رہتی ہیں۔ یہ جب آپ اہل علم سے پوچھیں گے بھی تو وہ آپ کو وہی جواب دیں گے جو کہ دین میں معلوم اور مشہور ہے۔ اس میں جب کوئی اختلاف ہی نہیں تو اس کی بابت آپ کو ہر اہل علم ایک ہی بات بتائے گا۔ مثلاً سود کا حکم، شراب کا حکم، فحاشی و عریانی وبے حیائی کی حرمت، چوری یا زنا کا قابل حد ہونا وغیرہ، اس میں کوئی ’اہل علم‘ اگر پوری اُمت کی راہ سے ہٹ کر آپ کو کچھ بتائے گا تو اس کی بددیانتی معلوم ہو جانا ذرہ بھر دشوار نہیں۔ اس میں کوئی آپ کو امت کی راہ سے ہٹ کر فتویٰ دے بھی دے ___ جیسا کہ ’شیخ الازہر‘ ایسے ’علماء‘ کے ہاں سے گاہے بگاہے صادر ہوتا رہتا ہے، اور جس کی کچھ کچھ اقتداءرفتہ رفتہ اب آپ کی ’نظریاتی کونسل‘ نے بھی شروع کر دی ہے ___ تو اس کے گمراہی ہونے کی جہاں امت کے ہزاروں علماءبیک آواز شہادت دیں گے وہاں ایک عامی بھی بغیر کسی دشواری کے یہ بات جاننے کی پوزیشن میں ہوگا کہ یہ ایک بددیانت ’فتوی‘ ہے۔ یہاں ___ یعنی مسلمات دِین میں___ ڈنڈی ماری کی ہی نہیں جا سکتی۔
یہ تو رہا دین کے معروف مسائل اور شریعت کے واضح واضح حلال و حرام کا معاملہ۔
یہاں سے، یعنی مسلماتِ شریعت کی غیر مشروط فرماں برداری سے۔۔۔۔ آپ کی ایک واضح جہت بن جائے گی۔ معاشی مسائل ہوں یا سماجی یا سول یا فوجداری یا تہذیبی اور ثقافتی ۔۔۔۔ ہر میدان میں دین کے معروف مسلمات جب آپ سے آپ ’قانون‘ ہوں گے اورا ن کے خلاف چلنا جب آپ سے آپ ’خلاف قانون‘ ہو گا تو بے شک ان مسلمات کی جزوی تفصیلات کے معاملہ میں آپ کو ’تحقیقات‘ یا ’فتاوی‘ کی ضرورت بھی ہوگی مگر ’کلیات‘ کی قانونی پابندی آپ کو خودبخود اس راہ پر ڈال دے گی کہ آپ شریعت کی جزئیات کی بابت اب کہیں نہ کہیں سے ضرور ہدایت لیں۔ ’کلیات شریعت‘ کی قانونی پابندی آپ کے پاس یہ گنجائش ہی نہ چھوڑے گی کہ ’جزئیات شریعت‘ کی بابت آپ اہل علم سے رہنمائی نہ لیں۔ یہی اس شریعت کی خوبصورتی ہے اور اس کی جامعیت بھی!!!
اب جزئیات شریعت کیلئے آپ جن اہل علم اصحاب سے بھی رہنمائی لیں گے جب تک وہ ’کلیات‘ کے اندر رہتے ہوئے دی اور لی جائے گی ___ جبکہ کلیات شریعت کے اندر رہنے کا مطلب ہر کس ناکس کو معلوم ہو سکتا ہے ___ تب تک وہ معاملہ ان حدود کے اندر ہی رہے گا جن سے نکلنا خداکے قانون سے کھلی بغاوت نہیں۔

اسی لئے ہم نے عرض کیا ہے کہ جب یہ طے ہو جائے کہ ’کلیات دین‘ ___ جو کہ بے انتہا واضح ہیں اور ہر کس وناکس کو معلوم ہو سکتی ہیں ___ آپ سے آپ قانون ہیں تو ’جزئیات دین‘ ان کے ساتھ خودبخود چلی آئیں گی۔ ان کو آنے سے پھر آپ روک ہی نہ سکیں گے۔ جزئیات دین میں پھر آپ ایک طبقہَ علم کی تعبیر پر انحصار کرتے ہیں یا دوسرے طبقہَ علم کی تفسیر پر، ایک فقہ پر چلتے ہیں یا دوسری فقہ پر یا متعدد فقہوں کے کسی منتخب مجموعہ پر، جب تک اس کا حال ’شیخ الازہر‘ جیسا نہیں ہو جاتا (جس کا کہ دین کی کلیات و اساسیات کے خلاف فتوے دینا ہر کسی کو معلوم ہو جاتا ہے اور اس بات کی شہادت دینے کو امت کے سینکڑوں علماءاور ہزاروں داعی موجود ہوتے ہیں، حتی کہ غیر مسلم جان جاتے ہیں کہ یہاں فتویٰ فروشی ہوتی ہے)، غرض فروعی احکام کی بابت کسی بھی ایک طبقہَ علم کی تعبیر پر انحصار کرنا پھر آپ کے پاس خدا کے سامنے پیش کرنے کیلئے یقینا ایک حجت ہو سکتا ہے۔

جزئیات و فروع کی حد تک بے شک آپ سب کے سب طبقہ ہائے علم کو خوش نہ کر پائیں پھر بھی کسی ایک قابل اعتماد طبقہَ علم سے اگر آپ ایک بے لاگ انداز میں رہنمائی لیتے ہیں تو اس دائرے سے آپ بہرحال نکل آتے ہیں جس میں آپ پر خدا کی کھلی کھلی بغاوت کی فرد جرم عائد ہوتی ہے۔
اس لحاظ سے شریعت کے احکام میں جو کلیات اور مسلمات پائے جاتے ہیں وہ بے شک تعداد میں بہت زیادہ نہیں مگر اپنی ماہیت میں وہ دین کا ایک بہت ہی بڑا اور بنیادی حصہ ہیں۔ ایمان لانا ہے تو وہ آپ کو ماننا ہی پڑیں گے۔ ان کو نہ جاننے کا کسی کے پاس عذر ہی نہیں۔ اس کے بعد اگلے مراحل پر آپ خودبخود مجبور ہوتے ہیں۔ شریعت کی ’کلیات‘ اگر قانون ہیں تو ’جزئیات‘ کی بابت کہیں نہ کہیں سے رہنمائی لئے بغیر گزارا ہی نہیں۔ چنانچہ کلیات کی قانونی حیثیت کا اعتراف خود ہی آپ کو جزئیات کی کسی نہ کسی تعبیر کا پابند کر دے گا۔ جزئیات کی بابت خدانخواستہ کوئی کتنی بھی بددیانتی کرے گا ___ جس کا حساب خدا ہی کے ہاں جا کر ہوگا ___ پھر بھی جزئیات کی کوئی غلط تعبیر جب تک کلیات کو ملیامیٹ نہیں کرتی ___ جیسا کہ ہم مصر کے معاملے میں مثال دے آئے ہیں ___ تب تک آپ کے خلاف خدا کے قانون سے کھلم کھلا خروج کر لینے کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔
مثال کے طور پر: سود کی حرمت، دین کا ایک مسلمہ ہے۔ اس پر آپ کو کوئی فتویٰ نہیں چاہیے۔ یہ ’معلوم من الدین بالضرورہ‘ ہے۔ سود کی حرمت کسی سے روپوش نہیں، الا یہ کہ کوئی کل ہی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوا ہے۔ اب اگر ”حرمتِ سود“ کو ’قانون‘ تسلیم کر لیا جائے تو سودی معاملات خود بخود ’خلاف قانون‘ ہو جاتے ہیں۔ ’سود‘ کا مطلب اور مفہوم ایک حد تک ہر سمجھدار آدمی جانتا ہے۔ ’سودی لین دین‘ کے ذیل میں آنے والا ایک بہت ہی بڑا حصہ تمام فقہاءکے نزدیک متفقہ طور پر معروف اور حرام ہے۔ اس حد تک سود قطعی طور پر ’خلاف قانون‘ ہو جاتا ہے۔ کوئی بھی مقننہ یا ادارہ یا محکمہ اس حد تک سود پر مشتمل قانون سازی کا مجاز نہیں رہتا۔ اس حد تک اگر ’فرماں برداری‘ کا مظاہرہ ہو جاتا ہے تو پھر اس کے بعد بہت سے معاملات ایسے رہ جائیں گے جن کی بابت یہ پوچھا جائے کہ آیا یہ سود بنتا ہے یا نہیں۔ یہاں آپ کو اہل علم سے رہنمائی چاہیے۔ یہ اہل علم طبقہ یا مجلس جس میں شرعی علم کی کم از کم شرط پوری ہونی چاہیے آپ کو ان معاملات میں خدا اور رسول کی منشا بتائے گی۔ اللہ اور رسول کے حوالے سے یہ آپ کو جو بات بتائے گی اس کو رد کرنے کے آپ یا آپ کا کوئی ادارہ یا محکمہ مجاز نہیں ہوگا۔ علماءکی یہ مجلس اب اگر فرعی معاملات میں لین دین Transaction کی کسی صورت کو بددیانتی کی بنا پرسند جواز دے دیتی ہے اور یہ سند جواز لینے والے بھی بددیانتی کی بنا پر ایسا کرتے ہیں ۔۔۔۔ تو جب تک ایسا کسی جزوی معاملے میں ہوتا ہے اور اس کی (غلط) دلیل کیلئے حوالہ بہرحال شرعی مصادر ہی سے دیا جاتا ہے تب تک ہم ان کا معاملہ خدا پر چھوڑتے ہوئے اس کے ساتھ صرف جزوی اختلاف ہی کر سکیں گے ۔۔۔۔ کیونکہ کلیات دین بدستور قانون مانے گئے ہیں اور مرجعیت اصولا خدا کی شریعت کو حاصل ہے اور کیونکہ فقہ اسلامی کے قطعی و متفق علیہ امور کی تاحال مخالفت نہیں کی گئی۔
اسی طرح مثلاً شراب حرام ہے۔ ’شراب‘ کی قانونی تعریف بھی آپ ضرور کریں اور یہ تعریف کرنے میں آپ کو بہت وقت بھی درکار نہیں مگر شراب کی حرمت ایک عام سمجھ آنے والی چیز بھی ہے (شراب اور سود کی حرمت والی آیات عام لوگوں کو ہی سنائی گئی تھیں اور سب کو سمجھ آگئی تھیں!) اگر لوگ ’شراب‘ کے معنی سے واقف ہی نہیں ہو سکتے تو شریعت ’شراب‘ کو حرام کرکے ان کے علم میں آخر کس چیز کا اضافہ کر رہی تھی؟ چنانچہ ’شراب‘ کا جو مفہوم تمام فقہاءکے ہاں متفقہ ہے اور جس سے کہ معاشرے کا ایک متوسط شخص بآسانی واقف ہو سکتا ہے، بلکہ ہے، اس کی حرمت آپ سے آپ واضح ہے۔ رہ گیا مشروب یا نبیذ کی کچھ خاص اقسام کا حکم، تو اس معاملہ میں اگر آپ کسی بھی معروف طبقہَ علم کی رہنمائی لیتے ہیں تو خطرے کی اس حد سے ضرور باہر آجاتے ہیں جس میں رہنا صاف صاف جاہلیت ہے۔
اسی طرح فحاشی اور بے حیائی کا مسئلہ ہے۔ تھیٹر، سینما، ٹی وی، فلم اورمیڈیا کے دیگر فورموں پر جو کچھ ہوتا ہے اور ان کو آپ کا قانون سند جواز دیتا ہے ایسی بیشتر سرگرمیوں کا ___ جن کے حیا سوز اور اخلاق باختہ ہونے میں ذرہ بھر شک نہیں ___ حرام ہونا اور خلاف اسلام ہونا ایک عامی تک سے روپوش نہیں۔ اسلام کا ان بے حیا مظاہر کی بابت جو حکم ہے اور جو کہ ہر شخص کو معلوم ہے اس کو اگر قانون تسلیم کر لیا جاتا ہے اور اس کی خلاف ورزی ’قانون‘ کی خلاف ورزی مانی جاتی ہے تو پھر اس کے بعد صرف وہ معاملات رہ جاتے ہیں جو فقہی اختلاف کے زمرے میں شمار ہو سکتے ہیں۔ مثلاً چہرے کا پردہ واجب ہے یا مستحب، اس پر آپ جس طبقہَ علم کی تفسیر پر بھی انحصار کرتے ہیں آپ اس خطرے سے بہرحال نکل آتے ہیںجو خدا کے قانون سے صاف صاف تصادم ہے۔


(1) یہ جملہ حدیث کی ایک عبارت سے ماخوذ ہے : ” لا علمی کا مداوا ، بس یہی تو ہے کہ آدمی کسی(علم والے ) سے پوچھ لیا کرے “ (مسند احمد و سنن ابی داؤد ) 


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی