سودی آقا، جمہوری غلام از اوریا مقبول جان

سودی آقا، جمہوری غلام از اوریا مقبول جان


یہ سب سرمایہ کہاں سے آتا ہے۔ دولت کی یہ ریل پیل جو سیاسی جماعتوں کے اجتماعات میں نظر آتی ہے‘ کیا یہ ان تمام لیڈروں کی ذاتی جمع پونجی ہے۔ کسی کنجوس کا نقشہ پشتو کے اس محاورے میں خوب کھینچا گیا ہے،’’ وہ تو کسی کو اپنا بخار بھی نہیں دیتا‘‘۔ سیاسی پارٹیوں میں موجود ان رہنماؤں کی اکثریت بھی ایسی ہے کہ روز مرہ زندگی میں وہ کسی غریب‘ مسکین‘ نادار یا اپنے مفلوک الحال ہمسائے پر چند روپے خرچ نہیں کرتے‘ لیکن جلسوں‘ جلوسوں‘ فلیکس ‘پرچموں کی تنصیب اور پارٹی پبلسٹی پر لاکھوں‘ کروڑوں بلکہ اب تو اربوں روپے خرچ ہو رہے ہوتے ہیں۔ ان سب کا خرچہ کون اٹھاتا ہے۔ یہ ہُن ان پر کون برساتا ہے۔
کیا ان کو یہ سرمایہ وہ دکاندار فراہم کرتا ہے جو صبح سے شام تک دکان پر بیٹھ کر رزق کماتا ہے یا وہ کار خانہ دار ان کی جھولی میں کروڑوں روپے ڈالتا ہے جس نے محنت سے فیکٹری لگائی ہے۔ یہ سب مل بھی جائیں تو اس ’’شاندار جمہوری نظام‘‘ کا خرچہ نہیں اٹھا سکتے۔ اس لیے کہ پارٹی چلانا‘ مسلسل دورے‘ جلسے‘جلوس‘ لٹریچر‘ میڈیا کے اشتہارات وغیرہ جیسے اخراجات ایک اندھا کنواں ہیں جس میں مسلسل نوٹ ڈالنے پڑتے ہیں اور واپس صرف اسمبلی کی رکنیت اور اس ملک کے غریب عوام کی قسمتوں سے کھیلنے کا اختیار ملتا ہے، یہ وہ اختیار ہے جس سے اس دولت کے ڈھیر میں اضافہ ہوتا ہے اور پھر اسے پارٹی فنڈنگ کے لیے استعمال کیا جاتا اور ذاتی سلطنت کی وسعت کے لیے بھی ۔

یہ سرمایہ کہاں سے آتا ہے؟ یہ سرمایہ یقیناً ان اٹھارہ کروڑ عوام کی جیبوں سے آتا ہے اور ان معصوموں کو اس کا علم تک نہیں ہوتا کہ یہ انھیں سے لوٹی ہوئی دولت ہے جو انھیں ہی بے وقوف بنانے پر استعمال ہو رہی ہے۔ دنیا کی ہر جمہوریت کے پیچھے سودی بینکاری نظام کی پیدا کردہ مصنوعی دولت کار فرماہے اور یہی صورت حال پاکستان کے ’’معزز جمہوری نظام‘‘ کی بھی ہے۔ جمہوریت اور سودی نظام کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
سودی  نظام ایک مصنوعی دولت تخلیق کرتا ہے اور پھر اس کے تحفظ کے لیے ایک ایسے سیاسی نظام میں سرمایہ لگاتا ہے جو بظاہر ایسے لگے جیسے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آیا ہے لیکن اسمبلیوں اور سینیٹ میں وہ ان بینک مالکان کا تحفظ کرتا ہے جنہوں نے پارٹی فنڈنگ کے ذریعے ان کے انتخابات کا خرچہ اٹھایا تھا۔ سودی نظام کا آغاز اسٹیٹ بینک سے ہوتا ہے۔
یہ ملک میں موجود سونے کے ذخائر‘ سیکیورٹی یا Good will کے مطابق نوٹ چھاپتا ہے جس پر یہ عبارت تحریر کرتا ہے کہ وہ ’’عندالطلب کو مطالبے پر ادا کرے گا‘‘ اس وقت پاکستان کے پاس تمام سونا‘ بانڈ‘ سیکیورٹی وغیرہ ملا کر کل 318 ارب روپے کی مالیت بنتی ہے لیکن  1700 ارب روپے کی مالیت کے  نوٹ چھاپ رکھے ہیں اور ان پر یہ وعدہ درج ہے کہ ہم عندالطلب کو اس کے بدلے سونا‘چاندی‘ چاول‘ گندم ادا کریں گے۔ پھر سود خور بینکوں کا مرحلہ آتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت 97 فیصد سے زیادہ بینکاری پرائیویٹ سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہے۔ واحد سرکاری بینک نیشنل بینک ہے۔ بینکوں کو ایک خاص شرح ’’ریزرو‘‘ نوٹ رکھ کر مصنوعی دولت تخلیق کرنے کا اختیار ہے۔
یہ وہ سرمایہ اپنی خط و کتابت Transaction سے تخلیق کرتے ہیں۔ یعنی ایک کاغذ یا ڈرافٹ جس پر ایک کروڑ روپیہ لکھا ہوا ہے وہ چینی والے سے کھاد والے‘ فرنیچر والے‘ دوائی والے ‘ آٹے والے سے ہوتا ہوا بینکوں تک پہنچتا ہے اور بینک مالا مال ہو جاتے ہیں۔ معیشت کی زبان میں اسے M2 کہتے ہیں اور بینکوں کو اصل سرمائے سے چالیس گنا زیادہ مصنوعی دولت تخلیق کرنے کا اختیار ہے۔ اس وقت ملک میں یہ مصنوعی دولت نوہزار آٹھ سو اٹھائیس (9828)ارب روپے کے برابر ہے۔ یعنی اصل دولت یا سیکیورٹی جو تین سو اٹھارہ ارب ہے اس پر مصنوعی دولت نو ہزار آٹھ سو اٹھائیس ارب روپے بنائی جا چکی ہے۔
کیا یہ دولت ان ظالم‘ خون چوسنے والے سود خور بینکوں نے کسی سرمایہ کاری کی صورت میں پیدا کی ہے‘ کیا انھوں نے کہیں کوئی ملیں یا کار خانے لگائے ہیں۔ نہیں۔ انھوں نے اپنا تمام سرمایہ ان جمہوری حکومتوں کی عیاشیوں اور اللے تللوں کے لیے انھیں قرض دیا ہے۔ ان میں تمام نجی بینک بھی شامل ہیں اور اسلامی بینکوں نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے سکوک جاری کیے ہیں‘ جن پر وہ بھی اسی سودی شرح پر رقم وصول کررہے ہیں اور وہ اسے بڑی سہولت اور آسانی سے حلال منافع قرار دیتے ہیں۔ اس وقت حکومت پاکستان پر ملکی بینکوں کا کل قرضہ دس ہزار ارب روپے ہے۔ جسے Domestic Debt کہتے ہیں۔
اس سال حکومت نے اس قرض پر ایک ہزار پانچ سو ارب روپے سود ادا کرنا ہے۔ حکومت بینکوں سے یہ قرضہ تین طریقوں سے لیتی ہے۔ -1 پاکستان انوسٹمنٹ بانڈ۔-2 اجارہ سکوک۔ -3 مارکیٹ لٹریری بانڈ۔ اکتوبر 2014 تک ان بینکوں نے حکومت کو گیارہ ہزار چار چھہتر 11476 ارب روپے کا قرض دے رکھا تھا۔ اس میں اسلامی بینکوں کے 319 ارب روپے کے سکوک بھی شامل ہیں۔ یہ ہے ان بینکوں کی کل سرمایہ کاری۔ حکومت کو قرض دیتے ہیں اور حکومت پوری قوم کو مقروض بناتی ہے اور پوری قوم یہ قرض اپنے خون پسینے کی کمائی سے ٹیکسوں کی صورت میں ادا کرتی ہے۔
یہ بینک کوئی پبلک لمیٹڈ کمپنیاں نہیں بلکہ افراد اور خاندانوں کی ملکیت ہیں۔ مثلاً ایک بینک کے شیئر ہولڈرز میں ایک بھائی %22‘ دوسرا بھائی22 فیصد‘ باپ 20 فیصد‘ ان کی کمپنی  %17 جب کہ اسٹیٹ بینک صرف %10ہے یعنی جو منافع حکومت ان کو ہر سال ادا کرتی ہے وہ ان مالکان کو گھر بیٹھے اس سودی نظام کی بدولت ملتا رہتا ہے۔ لوگوں پر ٹیکس لگائیں‘ قیمتیں بڑھائیں‘ ظلم کریں ان سرمایہ داروں کو سود ادا کرتے رہیں۔
میں ایک اور بڑے نجی بینک کے مالکان کا ذکر نہیں کرنا چاہتا کہ لوگ اسے  سیاسی گفتگو نہ بنالیں‘ ورنہ وہ اس بینک کے شیئر ہولڈرز کی لسٹ دیکھ لیں اور پھر سوچیں کہ اس  نے بھی حکومت کو 431 ارب روپے قرضہ دیا ہوا ہے اور وہ اس کا سود گھر بیٹھے وصول کر کے مالا مال ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ سب پرائیویٹ بینک مالکان اسی طرح مصنوعی دولت تخلیق کرتے ہیں اور ان کو ایسا ہی جمہوری نظام چاہیے جو ان سے دولت قرض لے کر عوام کو مقروض کرے اور عوام پر ٹیکس لگا کر ان کی تجوریاں بھرے۔
اس وقت پاکستان کا ہر بچہ96776چھیانوے ہزار سات سو چھہتر روپے سے زیادہ کا مقروض ہے ۔کیا کوئی کسی کو مرضی کے بغیر مقروض کر سکتا ہے ہر گز نہیں ۔لیکن جمہوری نظام کی ایک شاندار منطق ہے کہ کیونکہ عوام نے ہمیں ووٹ دے کر منتخب کیا ہے اس لیے انھوں نے ہمیں یہ اختیار بھی دیا ہے کہ ہم ان کے نام پر قرضہ حاصل کریں اور ان کو مقروض بنائیں۔
دنیا میں جن ملکوں نے بھی قرضہ واپس کرنے سے انکار کیا انھوں نے کہا کہ یہ ڈکٹیٹروں نے لیا تھا اس لیے ہم واپس نہیں کریں گے‘ جیسے ارجنٹائن جیسے ملک۔ لیکن کوئی جمہوری ملک اپنے جمہوری حکمرانوں کے لیے گئے قرضوں کا انکار نہ کر سکا‘ اس لیے کہ یہ  سب بینک کہتے ہیں کہ ان سیاسی رہنماؤں کو لوگوں نے ووٹ دے کر منتخب کیا تھا‘ یہ تمہارے جائز حکمران تھے اب تم ان کا لیا ہوا قرض ادا کرو۔ یہ ہے سودی معیشت اور جمہوریت کا گٹھ جوڑ۔ اسی لیے وہ مصنوعی دولت جو تخلیق کی جاتی ہے پارٹی فنڈنگ کے نام پر دنیا بھر میں جمہوری نظام کی بقا کے لیے خرچ کی جاتی ہے۔
اسی سے بڑے بڑے پارٹی کنونشن ہوتے ہیں‘ چھپتا ہے‘میڈیا پر اشتہارات دیے جاتے ہیں‘ جلسے اور جلوس نکالے جاتے ہیں‘ وہ تمام رنگا رنگی جو امریکی انتخابات سے لے کر پاکستانی سیاست تک نظر آتی ہے‘ سب اسی سرمایے کی مرہون منت ہے۔ اسی لیے‘ امریکا کے سرمایہ داروں نے 32 ہزار ارب ڈالر چوری کر کے کیمن جزیرے کے بینکوں میں رکھا ہے لیکن کوئی کانگریس میں آواز تک نہیں اٹھاتا، ویسے ہی پاکستان کے سرمایہ داروں نے جو اربوں ڈالر سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں رکھا ہوا ہے اس پر بھی کوئی شور نہیں مچاتا۔
گراموفون ریکارڈ کی کمپنی کے اشتہار پر ایک لاؤڈ اسپیکر کے سامنے کتا بیٹھا ہوتا ہے اور آواز کو غور سے سن رہا ہوتا ہے اور اس پر لکھا ہوا تھا His Majesty’s Voice یعنی ’’اس کے آقا کی آواز‘‘۔ اس جمہوری نظام کے آقا وہ کارپوریٹ کلچر کے سودی بینکار ہیں‘ انھی کے دم سے یہ رونق بازار ہے۔ اسے کون اجڑنے دے گا۔ یہ ایک رقص ہے جوعوام کے خون پسینے کی کمائی سے سود ادا کرکے سر بازار کیا جا رہا ہے۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی