کیا جنگ مقدر ہو چکی؟ از اوریا مقبول جان

کیا جنگ مقدر ہو چکی؟   از  اوریا مقبول جان


فرانس کے شہر پیرس میں اظہارِ رائے کے تحفظ کے لیے ہونے والا یک جہتی کا مظاہرہ ایک معمول کا واقعہ نہیں۔ یہ لوگ کسی سے یک جہتی کے لیے جمع نہیں ہوئے تھے بلکہ یہ اس اتحاد کا آغاز ہے جس نے ایک دن پوری مسلم امت سے جنگ میں کودنا ہے۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے حکمران پیرس کی سڑکوں پر ایسے مارچ کر رہے تھے جیسے آج سے چند صدیاں بیشتر یورپ کی گلیوں میں صلیبی جنگوں میں جانے والے رضا کار لوگوں کے جلوس پر جوش تالیوں میں شہروں کی گلی کوچوں میں گزرا کرتے تھے۔
کیا یہ سب کچھ آنے والے زمانوں کا پیش خیمہ ہے جس کی بشارت سیّدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، فرمایا ’’پھر رومی اپنے بادشاہ سے کہیں گے کہ ہم عرب والوں کے لیے آپ کی جانب سے کافی ہیں۔ چنانچہ وہ ایک عظیم جنگ کے لیے اکٹھے ہوں گے اور اسّی (80) جھنڈوں کے تحت آئیں گے اور ہر جھنڈے کے تحت بارہ ہزار سپاہی ہو ں گے (مستدرک و صحیح ابن حباّن)۔ یہ جنگ کب برپا ہونی ہے، اس کا علم صرف اور صرف اللہ کی ذات کو ہے۔ لیکن دنیا میں چھڑنے والی جنگوں کا آغاز اگر دیکھیں تو ان کے پس منظر میں آپ کو اسی طرح کے واقعات نظر آئیں گے۔


کوئی معمولی سا واقعہ جنگ کا بہانہ بنتا ہے اور جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ جنگ کے بادل چھٹ جاتے ہیں، لاکھوں لوگ قتل ہو جاتے ہیں، ہزاروں گھر برباد اور شہر کھنڈر بن جاتے ہیں، کسی کے سینے پر فتح کا تمغہ سجتا ہے اور کسی کے سر پر ذلت کا تاج۔ اس سارے کھیل کے ختم ہونے کے بعد جب لوگ اطمینان کا سانس لیتے ہیں، تو کہانیاں منظر عام پر آنے لگتی ہیں۔ یہ تو فلاں ملک کی سازش تھی، یہ آگ تو جان بوجھ کر لگائی گئی تھی۔ یہ سب تو ایک جھوٹے پراپیگنڈے کی وجہ سے ہوا۔ اس جنگ سے تو فلاں نے اپنا مفاد حاصل کرنا تھا۔ پیرس کے ایک غیر مقبول جریدے کے قتل کیے جانے والے چند صحافیوں اور کارٹون بنانے والوں کو ایک ایسی تحریک کی شکل دینا جو پوری دنیا کو  دو خیموں میں تقسیم کر دے، یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی گرد سے عالمی جنگ کے شعلے اٹھتے نظر آ رہے ہیں۔
1096ء میں شروع ہونے والی پہلی صلیبی جنگ میں حصہ لینے والے آج کے دور کے اتحادیوں کی طرح منافق نہیں تھے۔ انھوں نے آزادی اظہار، سیکولرزم اور جمہوریت کا لبادہ نہیں اوڑھا ہوا تھا۔ ستمبر 1096ء میں جب کاؤنٹ بوہمنڈ آف ٹیرانٹو نے نارمن صلیبی فوجیوں کو مارچ کرتے ہوئے دیکھا جو شہر کے بیچوں بیچ جلوس کی صورت جا رہے تھے تو اس نے اپنا سرخ لباس پھاڑ پھینکا، کیتھڈرل سے جا کر صلیب اٹھائی اور کہا، میں بھی ’’فرینک ہوں، اور کہا یہ میرے سب بھائی شہید ہو کر میرے بغیر ہی جنت میں چلے جائیں گے، اور ان کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ ستمبر 1096ء سے لے کر2 اکتوبر1187ء تک، وہ دن جب صلاح الدین ایوبی فاتح کی حیثیت سے یروشلم میں داخل ہوا، پورا یورپ اسی طرح جلوسوں کی صورت شہروں میں نکلتا اور اپنے صلیبی جنگجوؤں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتا۔ انھیں خوبصورت انداز سے محاذ ِ جنگ کے لیے رخصت کیا جاتا۔ یہ لوگ واضح تھے، اپنے مقصد کا برملا اظہار کرتے تھے۔
1099ء میں جب انھوں نے یروشلم فتح کرنے کے بعد مسلمانوں کا قتل عام کیا، تو انھوں نے اس پر فتح کے شادیانے بجائے، کسی نے انسانی حقوق، نظام کی تبدیلی، آمریت سے نجات کے نعرے میں پناہ نہیں ڈھونڈی۔ صاف صاف کہا ہم تمہارے دشمن ہیں اور تم ہمارے دشمن ہو۔ لیکن آج تو امن اور اظہار رائے کی آزادی کا نعرہ بلند کیا گیا ہے۔ یہ نعرہ اس پیرس میں لگایا گیا جہاں آج سے چند سال پہلے عدالت نے ایک ایسے اشتہار پر پابندی لگائی تھی، جس میں ماڈل حضرت عیسیٰ کے آخری کھانے (Last Supper) کی نقالی کر رہا ہوتا ہے۔
2005ء میں عدالت نے ایک ادارے (Aides haute Garonne) کو اس لیے سزا سنائی کہ اس نے ایڈز کی روک تھام کے لیے ایک تقریب منعقد کی جس کے معلوماتی کتا بچے پر ایک عیسائی راہبہ (Nun) کی ایسی تصویر تھی جس کے اسکارف کے ساتھ دو گلابی کنڈوم لٹکے ہوئے تھے۔1994ء میں اسی فرانس کی ایک عدالت نے ایک اخبار (Le quotidian de Paris) کو مجرم قرار دیا کیونکہ اس میں ایک ایسا مضمون چھپا تھا جس میں پوپ اور ان ریاستوں کے خلاف گفتگو کی گئی تھی جو کتیھو لک نظریات پر کاربند تھیں۔ خود یہ میگزین چارلی ہیبڈو اپنے ایک کارٹونسٹ کو صدر سرکوزی کی بیوی کے قابل اعتراض کارٹون بنانے پر نوکری سے بھی نکال چکا ہے اور معافی بھی مانگ چکا ہے۔ فرانس کا یہ صدر سرکوزی جب وہاں  وزیر داخلہ ہوتا تھا، اس نے ایک رسالے پیرس میچ کے ڈائریکٹر کو نوکری سے اس لیے نکلوایا تھا کہ اس نے اسی کی بیوی سیسلیا کی نیویارک کے کسی آدمی کے ساتھ قابلِ اعتراض تصویریں شائع کی تھیں۔
لیکن یہاں مسئلہ آزادی اظہار کے تحفظ کا نہیں۔ اگر آزادی اظہار کا تحفظ یورپ کے ممالک کو اتنا ہی عزیز ہوتا تو کوئی وہاں یہودیوں، اسرائیل یا ہولوکوسٹ پر چند سطریںِ ہی لکھ کر دکھاتا۔ اخبار تو ایک منظم ادارہ ہے، آپ سوشل میڈیا پر چند سطریں لکھ کر دیکھیں کیسے آزادی اظہار کا گلا گھونٹنے کے لیے بے تاب انتظامیہ آپ کا گلا گھونٹ دے گی۔ جہاں ایک بارہ سالہ بچے کو اس لیے سزا سنا دی گئی کہ اس نے ہٹلر کی تعریف اور یہودیوں کے خلاف بلاگ بنایا تھا۔
مسئلہ ابھی تو عالمی جذبات کی گرد میں لپٹا ہوا ہے۔ لیکن وہ جن کی زندگی جنگ و جدل اور سازشوں کے تانے بانے بنتے گزری ہے ان میں سے چند لوگ زبان کھول رہے ہیں کہ یہ سب کیوں برپا ہوا۔ پال کریگ رابرٹس (Paul Craig Roberts) جو صدر ریگن کے زمانے میں اسسٹنٹ سیکریٹری تھا اور آج کل وال اسٹریٹ جنرل کا ایسوسی ایٹ ایڈیٹر ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ میں امریکا اور اس کی سی آئی اے کو خوب جانتا ہوں۔ وہ کہتا ہے کہ امریکا نے نیٹو کے ممالک پر روس سے کاروباری تعلق رکھنے پر پابندی لگا رکھی ہے جس سے فرانس کی معیشت بری طرح خسارے کا شکار ہو رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ فرانس کے صدر نے اس واقعہ کے چند دن پہلے اعلان کیا تھا کہ روس پر سے پابندیاں ہٹا دی جائیں گی۔
یہ فرانس کا امریکا کی ان دیکھی غلامی سے آزادی کا اعلان تھا۔ لیکن چارلی ہیبڈو کے حق میں اظہار یک جہتی اسے ایک ایسی جنگ میں واپس گھسیٹ لائے گی جہاں اس کے لیے امریکا کے اشاروں پر ناچنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہو گا۔ اسی لیے اس مارچ میں مسلمان ممالک سے بھی وہی سربراہانِ مملکت گئے ہیں جو امریکی اثر و رسوخ کے تحت ہیں یا پھر جن کی حکومتوں کی بقا امریکا فوج اور سیاسی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ ابھی تو قتل کی تحقیق کا آغاز ہے اور ابھی سے مقصد کا سراغ نظر آ رہا ہے۔
نیویارک ٹائمز اپنی اشاعت میں لکھتا ہے کہ ان کارٹوٹسٹ اور صحافیوں کا قتل دراصل شام اور عراق میں قائم خلافتِ اسلامیہ کے ایما پر ہوا ہے۔ وہ تین بندوق بردار جو پیرس کے واقعہ میں ملوث بتائے جاتے ہیں ان میں سے ایک احمدی کوبلی کی موت کے دو دن بعد وڈیو منظر عام پر لائی گئی ہے جس میں وہ خلافتِ اسلامیہ کے جھنڈے کے ساتھ بیٹھا ہے۔ اس کے سوالات اور جوابات پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح ایک جنگ کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ اس ویڈیو میں وہ ایک سوال کے جواب میں کہتا ہے کہ اخبار پر حملے کرنے والے اور ہم سب ایک گروہ کا حصہ ہیں۔ کچھ کام ہم ساتھ کرتے ہیں اور کچھ علیحدہ علیحدہ، لیکن میں نے ابوبکر البغدادی کو اپنا امیر مانا ہوا ہے۔ جس دن صبح نیویارک ٹائمز میں یہ مضمون چھپا اسی شام کو امریکی سینیٹر جان میکین نے اس واقعہ کو بنیاد بنا کر خلافت اسلامیہ کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکا کا سب سے قابل اعتماد اور حکومتی پالیسیوں کا آئینہ دار رسالہ ’’فارن پالیسی‘‘ اس واقعے کے بعد ایسے مضامین شائع کر رہا ہے جن سے ایک نئی جنگ کے آغاز کی بو آ رہی ہے۔ یہ جنگ خوفناک بھی ہو سکتی ہے اور فیصلہ کن بھی۔ امریکا کے بارے میں یہ رسالہ لکھتا ہے کہ پراپیگنڈہ کی جنگ میں بھی امریکا خلافت اسلامیہ کو نہیں ہرا سکتا۔ اس لیے کہ مغرب کو علم تک نہیں کہ وہاں کا مذہب، ثقافت اور حالات کیا ہیں۔ اس کام کے لیے عرب ریاستوں اور مسلمانوں کو آگے آنا ہو گا۔ جنگ میں کودنا ہو تو سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ دشمن کس قدر متحد ہے اور مسلمانوں کا اتحاد دیکھنا ہو تو ایک ہی ٹیسٹ ہے اور وہ یہ کہ امت ابھی تک وہ سیدالانبیاء کے نام پر اور اُن کی شان پر جان قربان کرنے کو تیار ہے یا نہیں۔ یہ وہ واحد محبت ہے جس میں کوئی فرقہ بندی اور مسلکی اختلاف نہیں۔ اسی لیے خاکے دوبارہ شائع کیے گئے ہیں تا کہ دیکھا جا سکے کہ اس امت میں غیرت کہاں تک باقی ہے۔ یہ صرف یک جہتی کا مظاہرہ نہیں، آنے والے خوفناک دِنوں کا آغاز ہے۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی