اک ذرا صبر از اوریا مقبول جان

اک ذرا صبر از اوریا مقبول جان


کیا یہ سب لوگ مایوس لوٹ جائیں گے؟ کیا انھیں موسم کی سختیاں‘ عوام کی بے حسی اور انتظامیہ کا تشدد بے دل کر دے گا اور یہ نا امیدی کی چادر اوڑھے گھروں کو لوٹ جائیں گے؟ کیا وقت ان کے رہنمائوں کو تھکا دے گا اور وہ جیسا تیسا معاہدہ کر کے اگلے سفر پر روانہ ہو جائیں گے؟ یہ لوگ جو گزشتہ ایک ماہ سے زیادہ عرصہ سے کھلے آسمان تلے مکین ہیں‘ آپ ان کے رہنمائوں کے بارے میں جومرضی کہیں‘ اس مہم جوئی کو عالمی سازش کا حصہ قرار دیں‘ اس کے پیچھے مقتدر
قوتوں کا ہاتھ بتائیں‘ لیکن یہ لوگ اٹھارہ کروڑ عوام کا عطر ہیں۔ یہ وہ خوشبو ہیں جن سے قوموں کے وجود مہکا کرتے ہیں۔
یہ وہ سادہ دل اور پختہ یقین لوگ ہیں جو بے غرضی سے حالات بدلنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ ان کی یہ خواہش انھیں بے چین کر دیتی ہے۔ وہ جہاںروشنی کی کرن دیکھتے ہیں اس پر پروانوں کی طرح لپکتے ہیں۔ یہ پاکستان کی سات دہائیوں پر پھیلی مایوسی کی پیداوار ہیں۔ کیا یہ لوگ مایوس لوٹ جائیں گے؟ انھیں مایوس لوٹنا چاہیے؟یہ اگر آج مایوس لوٹے تو ان کی امیدیں اسی بوسیدہ‘ مکروہ اور انسانی تاریخ کے سب سے فریب زدہ نظام سے وابستہ رہیں گی۔ یہ سمجھتے رہیں گے کہ جمہوریت ہی دراصل ’’عوام کی حکمرانی‘‘ کا دوسرا نام ہے۔

انھیں اگر جمہوریت‘ پارلیمنٹ اور اس پر قابض لوگ ہی مایوس اور ناامید کرکے واپس لوٹائیں تو اس دن انھیں یقین آئے گا کہ سودی سرمایہ اور کاغذی کرنسی کی جعلی دولت کا جو نظام ان پر مسلط کیا گیا ہے‘ وہ اگلے سو سال دھرنے دینے سے بھی تبدیل نہیں ہو سکتا۔ جس دن ان لوگوں کا واپسی کا سفر شروع ہو گا‘ اس دن واپس لوٹنے والا ہر شخص ایک ایسی مشعل بن جائے گا جو روشنی تو بکھیرے گا لیکن ساتھ ہی اس دل میں ہر اس نشیمن کو جلا کر راکھ کرنے کی خواہش بھی کروٹیں لے رہی ہو گی جو ان کی زندگیوں میں زہر گھولتا ہے۔
کیا یہ لوگ مایوس اور نامراد لوٹیں گے‘ میرے سوال پر درویش نے مسکراکر کہا‘ نہیں ان کے ہاتھ میں کلہاڑی دے دی جائے گی۔ سوال کیا‘ مایوسی کے عالم میں کلہاڑی‘ یہ غضب ہو جائے گا۔ کہنے لگے جو لوگ ان کو نامراد لوٹائیں گے ان کو اس کا اندازہ نہیں۔ ہر گز نہیں‘ وہ اپنی طاقت کے غرور میں ہیں۔ کیا نشہ تھا کہ ہر کوئی پارلیمنٹ میں اپنے آپ کو اٹھارہ کروڑ عوام کا نمایندہ ہی نہیں جائز حکمران سمجھ کر بات کر رہا تھا۔ دو ہفتے ایوان میں طاقت کا مظاہرہ ہوتا رہا۔ ہر کسی کو اپنی پڑی ہوئی تھی۔ ایسے تھا جیسے کوئی طوفان پارلیمنٹ کو گھیرے ہوئے ہے۔
پارلیمنٹ سیلاب میں بہتے ہوئے اس تختے کی طرح تھی‘ جس میں خوف میں سہمے شیر اور بھیڑئیے بھی ساتھ کھڑے بکرے یا ہرن پر حملہ نہیں کرتے۔ سب دریا کے پار اترنے کا انتظار کرتے ہیں۔ جان کے لالے ایسے پڑے کہ ان دو ہفتوں میں ہر کسی کا خوف اور خواہش سب کھل کر سامنے آ گئے۔ اٹھارہ کروڑ لوگ منتظر تھے کہ کوئی ان کے بارے میں بھی بات کرے گا لیکن یہاں تو نشہ ہی اور تھا۔ نشے کا کمال یہ ہے کہ آدمی کا دلیل سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔
جمہوریت اور سسٹم کے تسلسل کی وکالت کرتے ہوئے ذہین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ احسن اقبال دنیا میں ترقی کی مثالیں دینے پر آئے تو اٹھارہ کروڑ عوام کو جاہل گردانتے ہوئے چین‘ سنگاپور اور کوریا کی مثالیں دے گئے۔ کیا یہ تینوں ملک جمہوریت کے منافقانہ نظام میں ترقی کے کمال تک پہنچے۔ چین کو اگر ایک جمہوری ملک تصور کر لیا جائے تو پھر موجودہ جمہوری تصورات کا نصاب دوبارہ تحریر کر کے پڑھانا پڑے گا اور شاید اسے پڑھانے کے لیے بھی احسن اقبال صاحب جیسا ’’صاحب علم‘‘ چاہیے ہو گا جسے آمریت اور جمہوریت کے فرق کو خوبصورتی سے ختم کرنا آتا ہو۔ سنگا پور کا نام لیا گیا۔
کیا دنیا میں کوئی ماہر سیاسیات 1959 میں برسراقتدار آنے والی لے کوان یو (Lee Kuan Yew) کو ایک جمہوری حکمران کہہ سکتا ہے۔ سنگا پور کی جمہوریت کو ایک سنگل پارٹی آمریت کا درجہ دیا جاتا ہے۔ وہ ملک جس میں عدلیہ تک آزاد نہیں اور مخالفین کو دبانے کے لیے حکومت ان کے خلاف عدالتوں میں ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے مقدمے لے کر جاتی ہے اور عدالتیں حکومت کے حق میں فیصلے دیتی ہیں۔ جہاں میڈیا پر مکمل سنسر شپ ہے۔ جس نے دنیا کی جمہوری حکومتوں کے دبائو کے مقابلے میں بہت سارے جرائم پر موت کی سزا برقرار رکھی ہوئی ہے۔
پورے کا پورا نظام جس میں عدلیہ‘ انتظامیہ اور مقننہ شامل ہے صرف ایک شخص کی آمریت کے تحت ہے اور اس کے کنٹرول میں ہے۔ نیوز ویک کے فرید ذکریا نے لی کوان ہوا سے سوال پوچھا کہ تم اتنے پڑھے لکھے اور لبرل آدمی ہو تم نے اپنے ملک میں جمہوریت کو کیوں نہیں پنپنے دیا۔ اس نے جواب دیا یورپ کو ترقی کرنے کے لیے دو تین سو سال مل گئے تھے‘ وہ تجربے سے سیکھ گئے۔ میری قوم کے پاس ضایع کرنے کے لیے اتنا وقت نہیں ہے۔ جنوبی کوریا کی مثال کس قدر ڈیسک بجا بجا کر دی گئی اور ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ انھوں نے ہمارا پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ نقل کیا اور ترقی کی۔
بددیانتی کا عالم یہ ہے کہ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ یہ منصوبہ ایک آمر ایوب خان کے زمانے میں مرتب ہوا تھا۔ لیکن جس کوریا کی مثال دی جاتی ہے اور وہاں کے جمہوری تسلسل اور نظام کو سراہا جاتا ہے۔ وہ 1979 سے اب تک یعنی 35 سالوں میں 27 وزیر اعظم دیکھ چکا ہے جن کا اوسط ڈیڑھ سال سے بھی کم بنتا ہے۔ ان کے ہاں آئین موم کی ناک ہے جس میں  1981,1972,1962 ,1960,1954,1952 اور 1987 میں ایسی ترامیم کی گئیں کہ ہر دفعہ اس کا حلیہ بگاڑ دیا۔ لیکن شاید احسن اقبال صاحب کو یاد ہو کہ 1960 میں کوریا میں طلبہ کے مظاہرے شروع ہوئے‘ اقتدار کے ایوانوں کا گھیراؤ کیا گیا۔
جمہوری طور منتخب لیکن انتہائی بددیانت صدر سنگ مین ری (Syngman Rhee) کو استعفٰے دینے پر مجبور کیا گیا۔ یہ شخص 1948 سے برسر اقتدار تھا اور اپنے اقتدار کو طویل کرنے کے لیے آئین میں ترامیم کرتا رہتا تھا۔ 19 اپریل کو طلبہ ایوان اقتدار ’’بلیو ہائوس‘‘ کے گرد جمع ہوئے‘ پولیس کو فائر کھولنے کا حکم ہوا‘ 180 طلبہ مارے گئے۔ 25 اپریل کو ہجوم بڑھتا چلا گیا‘ 26 اپریل کو سنگ مین نے استعفٰے دے دیا۔ اس کا منظور نظر نائب صدر لی کی پونگ (Lee ki Poong) جو ساری کرپشن کا مرکزی کردار تھا‘ اس نے پورے خاندان سمیت27 اپریل کو خود کشی کرلی۔
پارلیمنٹ نے اپنے آپ کو بچانے کی آخری کوشش کی۔ صدارتی کی جگہ پارلیمانی نظام منظور کیا۔ تمام اختیارات وزیر اعظم چینگ مایوں (Chang Myon) کو دے دیے گئے۔ لوگ ان بددیانت چہروں کو جانتے تھے۔ افراتفری‘ انارکی‘ بے چینی اور بدحالی۔ ایسے میں 16 مئی 1961 کو جنرل پارک چنگ ہی (Park Cheng hee) نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اسی نے اپنی ٹیم کو پاکستان میں جنرل ایوب کے ترقیاتی منصوبے کا جائزہ لینے بھیجا اور اس کے اٹھارہ سالہ دور اقتدار میں کوریا نے جو ترقی کی وہی آج اس کی بنیاد ہے۔
کیا احسن اقبال صاحب کی نظر میں ایسا ہی نقشہ ہے۔ آدمی کی زبان خوف کے عالم میں پھسلتی ہے یا پھر نشہ کے عالم میں۔ خوف تو یہ ہے کہ ہماری کشتی ڈوب نہ جائے اور نشہ یہ ہے کہ اس پارلیمنٹ کی کشتی پر سوار ہم سب متحد ہو گئے ہیں۔ ایسے میں زبانیں لڑ کھڑاتی بھی ہیں اور مدعا بیان بھی ہو جاتا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ ہم منتخب تو جمہوری طور پر ہوں لیکن حکومت آمروں کی طرح کریں۔ سوال پھر وہی ہے کہ کیا یہ لوگ مایوس اور نامراد لوٹیں گے۔ ہر گز نہیں۔ یہ اس معاشرے کا عطر ہیں۔ یہ بے غرضی میں وہاں بیٹھے ہیں۔ اللہ ایسے لوگوں کو ضایع نہیں کرتا۔
ہاں یہ مایوس ضرور لوٹیں گے‘ اس نظام سے‘ اس جمہوریت سے جو سرمائے اور طاقت کی کوکھ میں پل کر جوان ہوتی ہے اور بددیانتی‘ ظلم اور اقربا پروری پر پھلتی پھولتی ہے۔ اللہ انھیں ضایع نہیں کرتا لیکن ان کا تمسخر اڑانے والوں‘ انھیں گمراہ کرنے والوں اور ان کو مایوس کرنے والوں کا انجام قریب کر دیتا ہے۔ درویش نے کہا‘ کلہاڑی ان لوگوں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے۔ گٹر ابل چکے‘ ہر کسی کے اندر کا گند باہر آ گیا۔ ہر کسی کا باطن ظاہر ہو گیا۔ کب مایوسی کی لہر شروع ہوتی ہے اور صفائی کا آغاز ہے‘وقت تو صرف اللہ جانتا ہے۔ لیکن شاید اب کچھ نہ بچے‘ نہ نظام‘ نہ تسلسل اور نہ اقتدار‘ بس زندہ اور پایندہ رہے گا تو پیارا پاکستان۔ پرانی بوسیدہ عمارتوں کو گرا کر نئے گھر تعمیر کرنے کے دن آ رہے ہیں۔ خوشحال پاکستان کے دن لیکن بوسیدہ‘ کرم خوردہ اور خطرناک عمارتوں کو گرانے تو دو۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی