ممبران اسمبلی کے نام ... اسلام کا پیغام از پروفیسر حافظ عبداللہ بہاولپوری

ممبران اسمبلی کے نام ... اسلام کا پیغام   از پروفیسر حافظ عبداللہ بہاولپوری


 (پروفیسر حافظ عبداللہ بہاولپوری کی تقریبا 35 سال قبل  کی لاجواب تحریر)

ھٰذَ ا بَلاَغٌ لِّلنَّاسِ وَ لِیُنْذَرُوْا بِہٖ وَ لِیَعْلَمُوْا اَنَّمَا ھُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّ لِیَذَّکَّرَ اُولُواالْاَلْبَابِ[14:ابراہیم:52]

ممبران اسمبلی۔! السلام علیکم و رحمۃ اﷲ وبرکاتہ

دنیا میں اگرچہ اﷲ نے آپ کو بڑا درجہ دیا ہے ‘ آپ اسمبلی کے ممبر ہیں۔ملک و قوم کو بنانا یا بگاڑنا اب آپ کے ہاتھوں میں ہے‘ لیکن دین کے اعتبار سے آپ اکثر یتیم الاسلام ہی ہوتے ہیں۔ اﷲ آپ کے حال پر رحم فرمائے۔ آپ اپنی دنیا میں مست ہیں۔ آپ کو اپنی آخرت کی فکر نہیں۔حال آنکہ یہ دنیا آخرت بنانے کے لیے ہے ‘ دنیا کمانے کے لیے نہیں۔ دنیا میں تو آپ ہیں ہی۔ یہ تو آپ کو مل گئی ہے‘ بہت گزر گئی ‘ تھوڑی رہ گئی۔ فکر تو اب آپ کو آخرت کی ہونی چاہیے جو درپیش ہے۔ ۔۔ اور کبھی ختم نہیں ہوگی۔

آپ نے کبھی یہ کیوں نہیں سوچا کہ جب آپ کا صدر بھی مسلمان‘ وزیر اعظم بھی مسلمان‘ سپیکر بھی مسلمان اور ممبران اسمبلی بھی تقریباً سب مسلمان تو پھر پاکستان میں اسلام کیوں نہیں ؟ یہ تعجب کی بات نہیں کہ آپ سارے مسلمان ہوں اور اسلام نہ ہو۔ اسلام نافذ کر کے ہی تو آدمی مسلمان ہوتا ہے ۔ اسلام کو نافذ کرنے کے معنی اسلام پرعمل کرنا اور کروانا ہے اور اسلام کے معنی حکم ماننا ہے۔ اگر اسلام کا حکم مان لیا تو اسلام بھی نافذ ہو گیا اور بندہ بھی مسلمان ہو گیا۔ اگر اسلام کے حکم پر عمل نہ کیا تو نہ اسلام نافذ ہوا نہ بندہ مسلمان ہوا۔ مسلمان ہونے کے لیے اسلام کا نفاذ لازمی ہے۔ نفاذ اسلام اور مسلمان لازم و ملزوم ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ مسلمان ہوں اور اسلام نافذ نہ ہو۔ آپ کو شاید یہ معلوم نہیں کہ کوئی شخص کب مسلمان ہوتا ہے۔ آپ سمجھتے ہوں گے کہ کلمہ پڑھ لینے سے آدمی مسلمان ہو جاتا ہے اور جنرل ضیاء اور جناب جونیجو کے صدر اور وزیراعظم بن جانے سے ملک مسلمان ہو جاتا ہے؟ حالانکہ ایسا نہیں۔ کلمہ پڑھ لینے سے آدمی مسلمان نہیں ہوتا ‘ مسلمان اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے اوپر اسلام کو نافذ کر لیتا ہے۔ یعنی پورے اسلام پر عمل کرتا ہے ۔ اسلام کو نافذ کیے بغیر کوئی آدمی مسلمان ہو جائے‘ یہ خیال خام ہے۔۔۔ کلمہ پڑھنے سے تو اسلام میں صرف داخلہ ہی ملتا ہے۔ آدمی مسلمان نہیں ہوتا۔ مسلمان ہونے کے لیے اسلام کا پورا کورس پاس کرنا پڑتا ہے۔ جیسے ایم اے میں داخلہ لینا اور چیز ہے اور ایم اے کرلینا بالکل اور چیز۔ اسی طرح کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخلہ لینا اور چیز ہے اسلام کے احکامات پر عمل کرکے مسلمان ہونا بالکل اور چیز ۔ آدمی جوں جوں اسلام پر عمل کرتا جاتا ہے ‘ ادھر اسلام نافذ ہوتا جاتا ہے ‘ ادھر وہ مسلمان ہوتا جاتا ہے۔ اگر اسلام کا نفاذ رک گیا تو مسلمان کا اسلام ناقص ہو گیا۔

نکاح تو مرد و عورت کا ایجاب و قبول سے ہو جاتا ہے ‘لیکن مرد خاوند اس وقت بنتا ہے جب وہ اپنی عورت کو عملا اپنی بیوی بنا لیتا ہے اور اس کا سارا بوجھ اٹھا لیتا ہے۔اگر عورت کو عملاً وہ اپنی بیوی تو نہ بنائے اور عقد نکاح ہی سے خاوند رہنا چاہے تو پھر نکاح نہیں رہتا۔عورت علیحدگی کا مطالبہ کر دیتی ہے اور کہتی ہے کہ یا خاوند والی ذمہ داریاں پوری کرو ورنہ مجھے طلاق دے میں صرف عقد نکاح سے ہی تیرے ساتھ لٹکتی پھروں یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ آخر میرے بھی کچھ حقوق ہیں۔ جب تک وہ پورے نہ ہوں تو خاوند کیسا اور میں بیوی کیسی؟

اسلام بھی کلمہ گو مسلمان سے یہی کہتا ہے کہ کلمہ پڑھ کر تو نے مجھے قبول تو کر لیا ‘ اب یا تو مسلمان والی ذمہ داریاں پوری کرو ورنہ میرا نام نہ لے۔ صرف کلمہ پڑھ کر مجھے بدنام کرتا پھرے ‘ یہ مجھے منظور نہیں۔ آخر میرے بھی کچھ تقاضے ہیں۔ ان کو پورا کیے بغیر تو مسلمان کیسا؟

کوئی ملک اس وقت مسلمان ہوتا ہے جب اس ملک پر حکومت اسلام کی ہو ۔ قانون اسلام کا نافذ ہو اگر حکومت اسلام کی نہ ہو تو صدر اور وزیر اعظم یا ممبران اسمبلی کے رسمی مسلمان ہونے سے ملک مسلمان نہیں ہوتا۔ کہنے کو توپاکستان مسلمانوں کا ملک ہے‘ لیکن اسلام یہاں نہیں کیوں کہ یہاں حاکمیت اسلام کی نہیں۔ یہاں جمہوریت ہے جس میں حاکمیت عوام کی ہوتی ہے۔ اور جہاں حاکمیت عوام کی ہو وہاں اسلام نہیں رہتا۔ کیوں کہ جمہوریت وہ نظام ہے جس میں عوام کی چلتی ہے ‘ اسلام کو کوئی نہیں پوچھتا۔ اسلام کا حکم ہے ( اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ )[2:البقرہ:43]نما ز کو قائم کرو۔ اگر اسلام کی حکومت ہو تو اس حکم کے تحت ہر مسلمان پر نماز پڑھنا فرض ہے اور جو نماز نہ پڑھے وہ قابل گرفت ہے اور مجرم ہے۔ لیکن پاکستان میں جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے‘ اسلام کا یہ حکم مانا نہیں جاتا۔ کیوں کہ یہاں جمہوریت ہے۔ عوام کی نمائندہ اسمبلی نے اسلام کے اس واضح حکم کو تسلیم نہیں کیا اور ملک کا قانون نہیں بنایا۔ اس لیے پاکستان میں نماز نہ پڑھنا قانوناً کوئی جرم نہیں۔ کسی کی مرضی پڑھے یا نہ ۔ نماز پڑھنا یا نہ پڑھنا ہر ایک کا اپنا پرائیویٹ مسئلہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔

اس سے ثابت ہوا کہ جمہوریت میں خواہ اس کو اسلامی ہی کہا جائے ‘اﷲ کا کوئی حکم اس وقت تک ملک کا قانون نہیں بن سکتا جب تک عوامی حکومت اس کو ملک کا قانون نہ بنائے۔ جمہوریت کی حقیقت بھی یہی ہے کہ اس میں چلتی عوام کی ہے تو پھر جمہوریت میں اسلام عوام کے رحم و کرم پر ہوگا۔ عوام خواہ وہ مسلمان ہوں یا کافر ۔ اگر چاہیں گے تو اﷲ کا کوئی حکم قانون بنے گا ورنہ نہیں۔ جمہوریت میں یہ نہیں ہو سکتا کہ عوام کی مرضی کے خلاف اﷲ کا کوئی حکم اس حیثیت سے کہ وہ اﷲ کا حکم ہے قانون بن جائے۔ اسلیے جمہوریت کفر ہے۔کیوں کہ اس میں اسلام عوام کے تابع ہوتا ہے ‘ عوام اسلا م کے تابع نہیں ہوتے۔ جب جمہوریت کی ذات ہی پلید ہے تو اس کے مشرقی یا مغربی ہونے سے اس کی ذات میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ جہاں بھی ہو کفر ہی رہتی ہے۔جیسے مسلمان ہے‘ مشرق میں ہو یا مغرب میں‘ کافر کافر ہی ہے ‘ عرب میں ہو یا عجم میں۔ زنا جہاں بھی ہو ‘ جو بھی کرے‘ زنا ہے۔ مسلمان کرے تو بھی زنا ہے‘ کافر کرے تو بھی زنا ہے۔ زنا جب مردو عورت کے ناجائز جنسی تعلق کو کہتے ہیں تو یہ ناجائز تعلق جہاں بھی ہوگا زنا ہوگا اور حرام ہوگا ۔ کفر جہاں بھی ہوگا کفر ہوگا۔ جمہوریت جہاں بھی ہوگی جمہوریت ہوگی اور اس کی حقیقت وہی ہوگی کہ حاکمیت عوام کی اس لیے کفر ہوگی۔ کیوں کہ حاکم اﷲ کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔ ( اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ)[6:الانعام:57]اس میں شک نہیں کہ جمہوریت ہر جگہ کفر ہے‘ لیکن مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ پاکستان کی جمہوریت کفر نہیں کیوں کہ پاکستان کے دستور میںیہ لکھا ہوا ہے کہ حقیقی حاکم اﷲ رب العالمین ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب جمہوریت عوام کی حاکمیت کی وجہ سے کفر ہے تو پاکستانی جمہوریت کفر کیسے نہیں ؟ کیا پاکستان میں جمہوریت کا مطلب عوام کی حاکمیت نہیں؟ اگر پاکستان میں جمہوریت کا مطلب عوام کی حاکمیت ہی ہے تو پھر پاکستانی جمہوریت کفر کیوں نہیں؟ جمہوریت پاکستانی ہو یا غیر پاکستانی جہاں بھی ہوگی کفر ہوگی۔رہ گیا دستور میں حقیقی حاکم اﷲ رب العالمین کو لکھنا تو اس سے پاکستانی جمہوریت کی حقیقت نہیں بدلتی۔ پاکستانی جمہوریت کفر ہی رہتی ہے۔ اس لیے دستور میں اس تحریر کا دھوکے کے سوا کوئی فائدہ نہیں۔دستور میں یہ لکھنا کہ حقیقی حاکم اﷲ رب العالمین ہیں اور نظام جمہوریت کا چلانا جو کہ صریحاً کفر ہے ایسا ہی ہے جیسے کوئی لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ پڑھ کر شرک کرے۔ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲ پڑھ کر شرک کرنے سے کیا شرک شرک نہیں رہتا؟ کیا شرک توحید بن جاتا ہے ؟ جیسے بسم اﷲ پڑھنے سے حرام حلال نہیں ہوتا اسی طرح کلمہ پڑھنے سے شرک توحید نہیں بنتا۔شرک شرک ہی رہتا ہے خواہ ہزار بار لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲ پڑھا جائے۔ حرام حرام ہی رہتا ہے خواہ جتنی مرضی بار بسم اﷲ پڑھی جائے۔ توحید تو شرک مٹانے سے آتی ہے۔ صرف لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲ پڑھنے سے نہیں آتی۔ جب جمہوریت کہتے ہی عوام کی حاکمیت کو ہیں جو صریحاً شرک ہے تو جمہوریت کبھی اسلام نہیں ہو سکتی۔ کفر کو اسلامی کہنا ‘ اسلام سے مذاق کرنے والی بات ہے۔

اے ارکان اسمبلی!

آج آپ زندہ ہیں ‘ اسمبلی کے ممبر ہیں‘ جمہوری نظام کے تحت آپ کی خوب چلتی ہے۔ کل جب آپ اﷲ کے پاس جائیں گے تو کیا اﷲ آپ سے نہیں پوچھے گا کہ جب زمین میری ‘ آسمان میرا ‘ مخلوق میری‘ راشن میرا ‘ تو حکومت کیوں نہ میری۔۔۔ تمھاری کیوں؟۔۔۔۔ تمھیں میری مخلوق پر حکومت کرنے کا کیا حق تھا ؟

(اَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ)[7:الاعراف:54]جس کی مخلوق اسی کی حکومت ۔ تم نے اسلام کو نافذ کرکے میری حکومت کیوں نہ قائم کی؟ اپنی کیوں چلائی۔ آخر آپ کا جواب کیا ہوگا۔ اس لیے اے ارکان اسمبلی !۔۔۔ الحذر۔۔۔ الحذر۔۔۔ الحذر۔۔۔۔ اﷲ سے ڈرو۔پاکستان کو اپنی جمہوری جولاں گاہ بنا کر اﷲ اور اس کے ملک پاکستان سے غداری نہ کرو۔ سیدھے ہو کر اسلام کے تابع ہو جاؤ۔ اﷲ کی حکومت قائم کرو‘ ورنہ اﷲکی پکڑ دو رنہیں۔ بھٹو کے انجام کو نہ بھولو۔

وما علینا الا البلاغ

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی