مفتی محمود صاحب صدر قومی اتحادکے نام از پروفیسر حافظ عبداللہ بہاولپوری

 مفتی محمود صاحب صدر قومی اتحاد کے نام   از پروفیسر حافظ عبداللہ بہاولپوری

 (پروفیسر حافظ عبداللہ بہاولپوری کی تقریبا 35 سال قبل  کی لاجواب تحریر)

اسلام علیکم ۔! ۔۔۔ مفتی صاحب ! آپ کی ذات گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اﷲ نے آپ کو بہت اونچا مقام دیا ہے۔ مفتی پاکستان آپ‘ قومی اتحاد کے صدر آپ۔ مفتی صاحب اس اعتبار سے آپ کی ذمہ داریاں ہیں۔ اگر پاکستان کو فائدہ پہنچتا ہے تواس کا سہرا آپ کے سر اور اگر نقصان ہوتا ہے تو بھی آپ کے سر۔

مفتی صاحب!آپ کے بیانات بتا رہے ہیں کہ آپ ہر قیمت پر الیکشن چاہتے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ آپ الیکشن کیوں چاہتے ہیں؟ کیا الیکشنوں سے پاکستان محفوظ ہو جائے گا یا ملک میں اسلام آ جائے گا؟ مفتی صاحب! آپ جو الیکشن چاہتے ہیں تو کیا الیکشن آپ کا مقصود ہے یا اسلام آپ کا مقصود ہے۔ اگر الیکشن آپ کا مقصود ہے تو پھر مفتی صاحب آپ کا نظام اسلام کا دعویٰ

مردود ہے۔اسے آ پ چھوڑ دیں۔ اگر اسلام آپ کا مقصود ہے تو الیکشن بے سود ہے۔ کیوں کہ الیکشنوں سے نہ کبھی اسلام آیا ہے ‘ نہ آنے کی امید ہے۔ مفتی صاحب الیکشنوں کی سیاست پاکستان کی آزمائی ہوئی سیاست ہے۔ اس سیاست سے پاکستان کو نقصان تو پہنچا ہے فائدہ کبھی نہیں ہوا۔ ان الیکشنوں نے ہی مشرقی پاکستان کو توڑا ہے۔ ان سے مغربی کو توڑنے کے منصوبے ہیں۔ مفتی صاحب!آپ دیکھ نہیں رہے اتنے پاکستان کے دشمن ہیں‘ اندرون ملک ہوں یا بیرون ملک ۔ وہ الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کیا وہ پاکستان کی خیرخواہی میں یہ مطالبہ کر رہے ہیں۔ مفتی صاحب پاکستان کفر کو بہت کھٹکتا ہے کیوں کہ یہ اسلام کی خاطر اور اسلام کے نام پر بنا ہے۔ اس وقت اسلام کے جوش نے اسے بنا دیا۔ کفر رو ک نہ سکا۔ اب جب کہ اسلام کا جوش مدھم پڑ گیا اور عصبیتوں نے اس کی جگہ لے لی تو کفر کو موقع مل گیا ‘ وہ اسے ختم کرنے پر تلا ہوا ہے۔ کفر کی تکنیک یہی جمہوری الیکشن ہے ‘ جن کو وہ پہلے مشرقی پاکستان میں آزما چکا ہے۔مفتی صاحب! اب جو الیکشن ہوں گے بڑے خطرناک ہوں گے ‘ کیوں کہ بعض کے ارادے انتقامی ہیں۔ چنانچہ سندھ پنجاب سے انتقام کا مطالبہ کرے گا۔ ہمارے بھٹو کوکیوں مارا ۔ اس لیے جئے سندھ کے نعرے لگیں گے۔ بعض کے ارادے صوبائی مختاری کے نام پرعلیحد گی کے ہیں۔بزنجو‘ مینگل‘ اکبر بگٹی جیسے کردار آپ کے سامنے ہیں۔ بعض ویسے ہی اسلام اور پاکستان دشمن ہیں جو تخریب کاری چاہیں گے۔ بھارت وروس کے عزائم بھی آپ کو معلو م ہی ہیں۔ ان کے ایجنٹ بھی کام کریں گے۔ وہ موقع کے انتظار میں ہیں ۔مفتی صاحب!الیکشن ہو جائیں گے۔ تب آپ بے بس ہوں گے ‘ عوام بپھرے ہوئے ہوں گے ‘ نہ فوج کچھ کر سکے گی ‘ نہ لیڈر کچھ کر سکیں گے۔ لہٰذا مفتی صاحب! الیکشن کامطالبہ کرنے سے پہلے الیکشن کے نتائج کے بارے میں سوچ لیں۔

مفتی صاحب!آپ الیکشن پراتنا جو زور دیتے ہیں ‘ جس میں خطرات ہی خطرات ہیں‘آپ لوگ اسلام کے نفاذ پر زور کیوں نہیں دیتے۔ کیا اسلام کی ضرورت نہیں ؟ یا بغیر الیکشنوں کے اسلا م کا نفاذ ممکن نہیں ؟ مفتی صاحب! جتنا زور آ پ لوگوں نے الیکشنوں پر دیا ہے اتنا زور اگر اسلام کے نفاذ پر دیتے تو اسلام بھی کچھ نہ کچھ نافذ ہو جاتا اور رسوائی بھی نہ ہوتی۔ مفتی صاحب!حقیقت یہ ہے کہ کفر نے اس جمہوریت کے ذریعے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اسلام بھی ان سے چھڑا دیا ہے اور اسلامی فکر بھی ان سے لے لیا ہے۔ جمہوریت کا مسلمانوں کے ذہنوں پر یہ اثر ہے کہ آج مسلمانوں کو اسلام ناقص نظر آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام کوئی سیاسی نظام نہیں اور جب مسلمان مودودی اور آپ جیسی بزرگ ہستیوں کودیکھتے ہیں کہ آپ کا مذہب بھی جمہوریت ہے اور جمہوریت کی آپ لوگ دعوت دیتے ہیں تو انھیں یقین ہو جاتا ہے کہ اسلام ایک ناقص مذہب ہے جس میں کوئی سیاسی نظام نہیں۔ اس لیے ہمیں مغربی جمہوریت کو اپنا لینا چاہیے۔ مفتی صاحب !حقیقت یہ ہے کہ جب سے مسلمانوں نے اپنے نظام خلافت کو چھوڑا ہے ‘ مسلمان دین و دنیا دونوں لحاظ سے تباہ ہو گئے ہیں۔ وہ خلافت کے تصور کو ختم کرکے عصبیتوں کا شکار ہو گئے ہیں۔ اور چھوٹی چھوٹی جمہوریتوں میں بٹ گئے ہیں حتی کہ کفر کے دست نگر ہو کر رہ گئے ہیں۔ مفتی صاحب اسلام کا اپنا ایک سیاسی نظام ہے۔ وہ ہے خلافت الٰہیہ‘ جس میں حاکم اعلیٰ اﷲ ہوتا ہے ۔ مسلمان اس کاخلیفہ ۔ خلیفہ کا کام اﷲ کے حکم کو نافذ کرنا ہے۔ اپنے اوپر بھی اوردوسروں پر بھی۔ جو بھی یہ کام کر سکے و ہ اﷲ کا خلیفہ ہوتا ہے۔ ا س کو لوگوں نے منتخب کیا ہو یا وہ خود آ گیا ہو‘ جیسا کہ پاکستان کے حالات دیکھ کر صدر ضیاء نے اقدام کیا۔ اگر ضیاء کی قسمت اچھی ہوتی اور وہ جری ہوتا‘ اﷲ کے دین کو نافذ کر دیتا تو وہ یقیناًجائز اور شرعی ہوتا۔ لیکن ستیاناس ہو اس جمہوریت کا وہ بھی آپ کی طرح کا جمہوری تھا۔وہ روتا رہا۔ مفتی صاحب!آپ اور جماعت اسلامی جو اسلامی جمہوریت کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کبھی آپ نے سوچا بھی جمہوریت اسلامی کیسے ہوسکتی ہے؟ جمہوریت کفر کا نظام ہے۔ اسلام نظام الٰہی ہے۔ جمہوریت میں عوام کی چلتی ہے۔جو وہ چاہتے ہیں وہ ہوتا ہے۔ اسلام میں اﷲ کی چلتی ہے‘ اﷲ کا حکم نافذ ہوتا ہے۔عوام چاہیں یا نہ چاہیں۔ مفتی صاحب اسلامی جمہوریہ میں عوام جب چاہیں اپنی اکثریت کے ووٹ سے اسلام کی چھٹی کروا دیں۔ جب چاہیں اسلام کو رکھ لیں۔ اسلامی جمہوریت میں اسلام عوام کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ عوام اسلام کا لحاظ کر لیں تو ان کی مہربانی۔ لحاظ نہ کریں ‘ چھٹی کروا دیں تو ان کی مرضی ۔ مفتی صاحب بھٹو نے دستور کو بھی اسلامی مان لیا‘ پاکستان کو بھی اسلامی جمہوریہ لکھ دیا۔ لیکن جیسے چاہا دستور کو توڑا‘ اسلامی جمہوریہ کو مروڑا ۔ جب چاہا آپ کو باہر پھینک کر آپ کی مرمت کر دی۔ مفتی صاحب! آپ عالم دین بھی ہیں اور مفتی بھی ‘ اور احکام شریعت سے بھی آپ باخبر ہیں اور اسلامی تاریخ سے بھی آپ واقف ہیں۔ آپ ہی بتائیں کہ جمہوریت اسلام ہے یا اسلام میں جمہوریت ہے۔ کیا جمہوریت جو ایک کافرانہ نظام ہے اور کافروں نے ہی اسے ایجاد کیا ہے اسلامی ہو سکتی ہے ؟ آپ ہی سوچیں کیا کفر بھی مسلمان ہوا ہے ؟ مفتی صاحب کافر مسلمان ہو جائے تو ہو جائے ‘ کفر کبھی مسلمان نہیں ہوتا۔ کفر باطل ہے اور باطل مٹنے والی چیز ہے۔ ( اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا)[17:الاسراء:81]اس لیے جمہوریت کبھی اسلامی نہیں ہوتی۔ مفتی صاحب نہایت افسوس کا مقام ہے کہ آپ نے عالم دین ہوتے ہوئے کافروں کے اس نظام کو اپنا لیا اور بجائے اسلام کے الیکشن کو ورد زبان بنا لیا ہے۔جس کا اثر یہ ہے کہ اسلام آپ لوگوں سے بہت دور ہٹ گیا ہے ‘اور ملک میں نہیں آتا۔ خدا کے لیے آپ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں۔ یہ نہ دیکھیں کہ لوگ کیا کہیں گے یہ دیکھیں کہ اﷲ کیا کہے گا۔ اگر آپ نے راہ نہ بدلی تو سوچ لیں پاکستان کا کیاحشر ہوگا اور آپ کا کیا انجام ہوگا؟

منجانب جماعت اہل حدیث بہاول پور

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی