جمہوریت اور تحریک پاکستان کے حوالے سے مولانا مودودی کا تقسیم ہند سے قبل کا مؤقف

  جمہوریت اور تحریک پاکستان کے حوالے سے مولانا مودودی کا تقسیم ہند سے قبل  کا مؤقف

 مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ تقسیم ہند سے قبل تحریک پاکستان کے  بارے میں بجا خدشات رکھتے تھے  اور سمجھتے تھے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت  نسلی و قانونی مسلمان تو ہیں مگر عملی مسلمان نہیں ہیں اور پاکستان بنانے کی تحریک  بھی محض ایک مسلم قومیت کی خاطر ہی ہے ناکہ اسلام کے نفاذ کےلیے، اس بات کو آپ نے کئی مرتبہ لوگوں کے سامنے رکھا  اور اس بات کی بہت عمدہ طریقے سے وضاحت کی کہ ایک اچھا اور سچا مسلمان بننے کے کیا تقاضے ہیں . ایک جگہ فرمایا :

"ان کے لیے یہ بالکل کافی ہے کہ ان کی ایک لیگ ہو جس میں وہ سب لوگ ایک پلیٹ  فارم پر جمع ہو  جائیں  جو مسلمان کہلاتے ہیں اور مسلمانوں کے نظام ِ معاشرت سے وابستہ ہیں . انہی کے گروہ کے کچھ لوگ ان کے قائد ہوں جن کے اشاروں پر یہ حرکت کریں اور ان کی تمام جدوجہد مقصود صرف یہ ہو کہ جو کچھ ان کے ہاتھ میں ہے وہ جانے نہ پائے اور جو کچھ مزید ہا تھ آ سکتا ہو وہ آ جائے ، قطع نظر اس سے کہ اسلام جس کے نام سے یہ اپنی قوم کو مسلمان کہتے ہیں اس کو جائز سمجھتا ہو یا نہ سمجھتا ہو ...."

لیکن پھر اس کی بھی وضاحت کر دی گئی کہ :

" مگر خوب جان رکھئے کہ اسلام کو اس قومیت سے کوئی واسطہ نہیں ہے ، اسلام کو نہ کسی نسلی گروہ سے کوئی دلچسپی ہے ، نہ وہ کسی جماعت کی موروثی عادات و رسوم سے کوئی لگاؤ رکھتا ہے . نہ وہ دنیا کے معاملات کو چند اشخاص یا مجموعہ اشخاص کی منفعت کے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے . نہ وہ اس لیے آیا ہے کہ انسانیت جن گروہوں میں بٹی ہوئی ہے ان کے اندر اپنے نام سے ایک اور گروہ کا اضافہ کر دے . نہ وہ انسانی جماعتوں کو جانور بنانا چاہتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے بالمقابل تنازع للبقا کے میدان میں اتریں  اور انتخاب طبیعی کے امتحان میں شریک ہوں . یہ سب کچھ غیر اسلامی ہے...."

اور اگر آپ واقعی مخلص مسلمان بننا چاہتے ہیں تو :

" لیکن اگر آپ کو اسلام سے واقعی محبت ہے اور حقیقت میں آپ مسلمان ہی رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو یہ جان لینا  چاہیے کہ اسلام ، یہودیت  اور ہندو ازم کی طر ح ایک نسلی مذہب  نہیں ہے  جوا یک نسلی قوم بناتا ہے بلکہ وہ تمام نوعِ انسانی کے لیے  ایک اخلاقی و اجتماعی مسلک ہے . .. وہ ایک جہانی نظریہ  اور ایک عالمی تصور ہے "

اور اگر اسے قبول کرنا ہے تو :

"آپ کو اپنے دماغ سے قومی مفاد کا تصور نکال  دینا پڑے گا اور اس  کی جگہ اسلام کے اُصول اور اس کے نصب العین  کو دینی ہوگی . آپ کو وقتی اور مقامی مقاصد سے صرِف نظر کر لینا ہو گا اور اپنی نظر ایک مقصد پر جما دینی ہو گی  کہ اسلام کے اصول دنیا میں حکمران ہیں . اس غرض کے لیے آپ کو دنیا بھر سے لڑنے کے لیے تیار ہونا ہو گا  اور کسی ایسی پارٹی سے جو آپ کے اصول نہ مانتی ہو ، آپ کسی شرط پر بھی سودا نہ کر سکیں گے ...آپ کو سختی کے ساتھ ایک بااُصول جماعت بننا پڑے گا . ان ناکارہ لوگوں کو اپنے سے الگ کر نا ہوگا جو آپ کے اُ صولوں کو نہ مانتے ہوں اور سب قوموں میں سے ان صالحین کو چن چن کر اپنے ساتھ ملانا ہوگا جو ان اصولوں کو ماننے کے لیے تیار ہوں . آپ کو ابن الوقتی چھوڑ دینی پڑے گی . اپنے اصول سے ہٹ کر آپ کچھ نہ کر سکیں گے خوا ہ اس میں کتنا ہی بڑا شخصی یا قومی فائدہ ہو . آپ کو ایک ایسی مجاہد جماعت بننا پڑے گا  جو اپنے اُصول کے لیے لڑنے والی ہو ، جس کا مقصد اپنی قومی حکومت  قائم کرنا نہ ہو بلکہ اپنے اصولوں کی حکومت قائم کر نا ہو ...."

مولانا مودودی  نے اسلامی انقلاب کے لیے انبیا ء اکرام کے منہج کو اختیار کرنے کی دعوت دی اور اس کی وضاحت "اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے " کے موضوع پر 1940ء میں تقریر کرتے ہوئے درج ذیل الفاظ میں کی :

"درحقیقت اسلامی حکومت کسی معجزے کی شکل میں صادر نہیں ہوتی . اس کے پید ا  ہونے لیے ناگزیر ہے کہ ابتداء میں ایک ایسی تحریک اٹھے جس کی بنیاد میں وہ نظریہ ء حیات ، وہ مقصد زندگی ، وہ معیار اخلاق ، وہ سیرت و کردار  ہو جو اسلام کے مزاج سے مناسبت رکھتا ہو . اس کے لیڈر اور کارکن صر ف وہی لوگ ہوں  جو اس خاص طرز کی انسانیت  کے سانچے میں ڈھلنے کے لیے مستعد ہوں . پھر وہ اپنی جدو جہد سے سوسائٹی  میں اسی ذہنیت اور اسی اخلاقی روح کو پھیلانے کی کوشش کریں . پھر اسی  بنیاد پر تعلیم و تربیت کا ایک نیا نظام لے کر اٹھے جو اس مخصوص ٹائپ کے آدمی تیار کرے . اس سے مسلم سائنٹسٹ ، مسلم فلسفی ، مسلم مؤرخ ، مسلم ماہرین مالیات  و معاشیات ، مسلم ماہرین قانون ، مسلم ماہرین سیاست .. غرض ہر شعبہ ء علم وفن میں ایسے آدمی پیدا ہوں  جو اپنی نظر وفکر کے اعتبار سے مسلم ہوں . جن میں یہ قابلیت ہو کہ افکار ونظریات کا ایک پورا نظام اورعملی زندگی  کا ایک مکمل خاکہ اسلامی اصولوں پر مرتب کریں  اور جن میں اتنی طاقت ہو کہ دنیا کے خدا ناشناس ائمہ فکر کے مقابلے میں  اپنی عقلی و ذہنی قیادت کا سکہ جما دیں . اس دماغی پس منظر کے ساتھ  یہ تحریک عملا اس غلط نظام ِ زندگی کے خلاف جدوجہد کرے جو گردوپیش پھیلا ہوا ہے ۔ اس جدو جہد میں اس کے علمبردار مصیبتیں  اٹھا کر ، سختیاں جھیل کر ، قربانیاں کر کے ، مار کھا کر اور جانیں دے کر اپنے خلوص  اور اپنے ارادے کی مضبوطی کا ثبوت دیں .... اپنی لڑائی کے دوران میں اپنے ہر قول  اور ہر فعل سے اپنی مخصوص آئیڈیالوجی کا مظاہرہ کریں  جس کے علمبردار بن کر وہ اٹھے ہیں اور ان کی ہر بات سے عیاں ہو کہ واقعی ایسے  بے لوث ، بےغرض ، راست باز ، پاک سیرت ، ایثار پیشہ ، بااصول ، خداترس  لوگ انسانیت کی فلاح کے لیے جس اصولی حکومت کی طرف دعوت دیتے ہیں اس میں ضرور انسا ن کے لیے عدل اور امن ہو گا ۔ اس طرح کی جدوجہد سے وہ تمام عناصر جن کی فطرت میں کچھ راستی و نیکی موجود ہے اس تحریک میں کھنچ آئیں گے .پست سیرت لوگوں  اور ادنیٰ ٰ درجہ کے طریقوں پر چلنے والوں کے اثرات اس کے مقابلہ میں دبتے چلے جائیں  گے . عوام کی ذہنیت میں ایک انقلاب رونما ہو گا . اجتماعی زندگی میں اس مخصوص نظام ِ حکومت کی پیاس پیدا ہو جائے گی اور اس بدلی ہوئی سوسائٹی  میں کسی اور طرز کے نظام کے لیے چلنا مشکل ہو جائے گا . آخرکار ایک لازمی اور طبعی نتیجہ کے طور پر وہی حکومت قائم ہو جائے گی جس کے لیے اس طرز پر زمین تیار کی گئی ہو ".

جب مسلمانان ہند تقریبا متفق ہو کر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر نظریہ پاکستان کو عملی جامہ پہنانے کے  لیے جمع ہو چکے تھےاور اس تحریک میں تمام اصطلاحات اسلام سے مستعار لی گی تھیں اور نظریہ پاکستان کو اسلامی حکومت کے قیام کے جذبہ سے متصف بیان کیا جارہا تھا۔چناچہ اس شورو شغب میں اسلامی حکومت اور حکومت الٰہیہ  کے مقدس الفاظ کا بے جانے بوجھے بکثرت استعما ل کیا جا رہا تھا . خود مولانا مودودی صاحب کے الفاظ میں :

''اس خام خیالی کی تمام تروجہ یہ ہے کہ بعض سیاسی و تاریخی  اسباب سے کسی جیز کی خواہش تو پیدا ہو گئی ہے ،جس کا نام "اسلامی حکومت " ہو مگر خالص عملی طریقہ پر نہ تو یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی کہ اس حکومت کی نوعیت کیا ہےاور نہ یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ کیونکر قائم ہوا کرتی ہے "

اس کے بعد ' 'خام خیالیاں " کا باقاعدہ عنوان قائم کرکے مولانا مودودی نے اسلامی حکومت اور اس کے قیام کے لیے طریق کار کے سلسلے میں جو بھانت بھانت کی بولیاں اُس وقت بولی جارہی تھیں ان کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے فرمایا :

" بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ایک دفعہ غیر اسلامی طرز ہی سہی مسلمانوں کا قومی اسٹیٹ قائم تو ہو جائے پھر رفتہ رفتہ تعلیم وتربیت اور اخلاقی اصلاح کے ذریعہ سے اس کو اسلامی اسٹیٹ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے . مگر میں نے تاریخ ، سیاسیات اور اجتماعیات کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے ' اس کی بنا پر میں اس کو ناممکن سمجھتا ہوں اور اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو جائے تو میں اس کو ایک معجزہ سمجھوں گا. جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں  ، حکومت کا نظام ِ اجتماعی زندگی میں بڑی گہری جڑیں رکھتا ہے . جب تک اجتماعی زندگی میں تغیر واقع نہ ہو  کسی مصنوعی تدبیر سے نظام حکومت میں کوئی مستقل  تغیر نہیں کیا جا سکتا . عمر بن  عبدالعزیز جیسا زبردست فرمانروا جس کی پشت پر تابعین و تبع تابعین کی ایک بڑی جماعت بھی تھی ،ا س معاملہ میں قطعی ناکام ہو چکا ہے کیونکہ سوسائٹی بحثیت مجموعی اس اصطلاح کے لیے تیار نہ تھی۔ محمد تغلق  اور عالمگیر جیسے طاقتور بادشاہ  اپنی شخصی دینداری کے باوجود نظام حکومت میں کوئی تغیر نہ کرسکے ۔  مامون الرشید جیسا باجبروت حکمران ، نظام حکومت میں نہیں ، صرف اس کی اوپری شکل میں تبدیلی پیدا کرنا چاہتا تھا ا ور اس میں بھی ناکام ہوا ۔یہ اُس وقت کا حال ہے جب کہ ایک شخص کی طاقت بہت کچھ کر سکتی تھی ۔اب میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جو قومی اسٹیٹ جمہوری طرز پر تعمیر ہو گا وہ اس بنیادی اصلاح میں آخر کس طرح مددگار ہو سکتا ہے . جمہوری حکومت میں اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں آتا ہے جن کو ووٹروں کی پسندیدگی حاصل ہو . ووٹروں میں اگر اسلامی ذہنیت  اور اسلامی فکر نہیں ہے ، اگر وہ صحیح اسلامی کیرکٹر کے عاشق نہیں ہیں ، اگر وہ اس بے لاگ عدل اور ان بے لچک اصولوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار  نہیں ہیں ، جن پر اسلامی حکومت چلائی جاتی ہے تو ان کے ووٹوں سے کبھی "مسلمان " قسم کے آدمی منتخب ہو کر پارلیمنٹ  یا اسمبلی میں نہیں آسکتے ۔اس ذریعہ سے تو اقتدار ان ہی لوگوں کو ملے گا جو مردم شماری کے رجسٹر میں تو چاہے مسلمان ہوں مگر اپنے نظریات اور طریق کار کے اعتبار سے جن کو اسلام کی ہوا  بھی نہ لگی ہو،اس قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار آنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اسی مقام پر کھڑے ہیں  جس مقام پر غیر مسلم حکومت میں تھے ، بلکہ اس سے بھی بدتر مقام پر  کیونکہ وہ " قومی حکومت " جس پر اسلام کا نمائشی لیبل لگا ہو گا ،اسلامی انقلاب کا راستہ روکنے میں اس سے بھی زیادہ جری و بے باک ہو گی ، جتنی غیر مسلم حکومت ہوتی ہے . غیر مسلم حکومت جن کاموں پر قید کی سزا دیتی ہے وہ  مسلم "قومی حکومت " ان کی سزا پھانسی اور جلاوطنی  کی دے گی اور پھر بھی اس حکومت کے لیڈر جیتے جی غازی اور مرنے کے بعد رحمتہ اللہ علیہ ہی رہیں  گے . پس یہ سمجھنا  قطعی غلط ہے  کہ اس قسم کی "قومی حکومت " کسی معنی میں بھی اسلامی انقلاب لانے میں مددگار ہو سکتی ہے . اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم کو اس حکومت میں بھی اجتماعی زندگی کی بنیادیں بدلنے ہی کی کوشش کرنی پڑے گی اور اگر ہمیں یہ کام حکومت کی مدد کے بغیر بلکہ اس کی مزاحمت کے باوجود اپنی قربانیوں ہی سے کرنا ہوگا تو ہم آج ہی سے یہ راہ عمل اختیار کیوں  نہ کریں ، اس نام نہاد "قومی حکومت"کے انتظا ر میں اپنا وقت یا اس کے قیام کی کوشش میں اپنی قوت ضائع کرنے کی حماقت آخر ہم کیوں کریں ۔ جب کہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ ہمارے مقصد کے لیے نہ صرف غیر مفید ہو گی بلکہ کچھ زیادہ ہی سدراہ ثابت ہوگی ".

 اسی سے ملتا جلتا ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو . عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات اس دلیل کے جواب میں کہی گئی تھی کہ مسلمانوں کی ایک قومی حکومت (پاکستان ) کے قیام سے حکومت الٰہیہ کا اصل مقصد حاصل نہ بھی ہو تو کم از کم اس نصب العین کی طر ف پیش قدمی اور اس کے لیے  سعی و جہد آسان تو  ہو جائے گی .. کہا گیا کہ :

" اس میں شک نہیں کہ عوام کی اخلاقی و ذہنی تربیت کرکے ، ان کے نقطہ نظر کو تبدیل کر کے اور ان کی نفسیات میں انقلاب برپا کر کے ایک جمہوری نظام کو الہٰی نظام میں تبدیل  کیا جا سکتا ہے . لیکن سوال یہ ہے کہ اس اخلاقی و نفسیاتی انقلاب کے برپا کرنے میں کیا مسلمانوں کی کافرانہ حکومت کچھ بھی مددگار ثابت ہو گی ؟ کیا وہ لوگ جو بگڑی ہو ئی سوسائٹی کے مادی مفاد سے اپیل کر کے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے  ان  سے آپ یہ امید کر سکتے ہیں  کہ وہ حکومت کا روپیہ  اور اس کے وسائل اور اختیارات  کسی ایسی تحریک کی اعانت میں صر ف کریں گے جس کا مقصد  عوام کی ذہنیت  تبدیل کر نا اور انہیں  حکومت ِ الہٰی  کے لیے تیار کرنا ہو ؟ اس کا جواب عقل اور تجربہ دونوں کی روشنی میں نفی کے سوا کچھ نہیں دیا جا سکتا ، بلکہ سچ یہ ہے کہ یہ لوگ اس انقلاب میں مدد دینے کی بجائے الٹی  اس کی مزاحمت کریں گے  کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ  اگر عوام کی نفسیات میں تغیر واقع ہو گیا تو اس کی بدلی ہوئی سوسائٹی میں ان کا چراغ نہ جل سکے گا . یہی نہیں اس سے زیادہ خوفنا ک حقیقت یہ  ہے کہ نام کا مسلمان ہو نے کی وجہ سے یہ لوگ کفار کی نسبت  بہت زیادہ جسارت و بے باکی کے ساتھ ہر کوشش کو کچلیں گے اور ان کے نام ان کے ظلم کی پرد ہ پوشی کے لیے کافی ہوں گے ".

 اقتباسات کا یہ سلسلہ طویل ہو رہا ہے لیکن ''دوراول '' کی جماعت اسلامی کی تصویر کشی کے لیے ان اقتباسا ت کا نقل کرنا ناگزیر تھا . اس سلسلے میں آخری اقتباس  جماعت اسلامی  کے اجتماع ٹونک منعقدہ  17-18 اپریل 1947ء کے موقع پر " دو سوال اور ان کا جواب " ہے . اس جواب نے اس مسئلے کو اس قدر واضح کر دیا ہےکہ مزید وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہتی .

سوالات:

یہ تسلیم ہے کہ مسلم لیگ کے پیش نظر جو پروگرام ہے وہ غیر اسلامی ہے لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت دین سے ناواقف ہے . علماء نے انہیں  اسلام سمجھانے  کی کوئی کوشش نہیں کی ، وہ اپنے سیاسی لیڈروں کے بتلائے ہوئے راستے کو ہی صراط مستقیم اور اسلام کا صحیح راستہ سمجھ رہے ہیں  اور غیرمسلم قومیں  ان کے وجود کو مٹانے کےلیے سفاکی و خونریزی سےکام لے رہی ہیں . ان حالات میں ان کی مظلومی میں جماعت ان کا ساتھ کیوں نہ دے  اور غیر مسلموں سے اس مدافعانہ جنگ میں شریک کیوں نہ ہو ؟

اِس وقت برطانیہ ، ہندوستان کی حکومت ہندو ستانیوں کے سپرد کر رہا ہے اور اس کی دو صورتیں ہیں : ایک یہ کہ ہندوؤں کی حصہ ہندوؤں کے حوالے کیاجائے اور مسلمانوں کا حصہ مسلمانوں کے حوالے کیا جائے  او ر دوسری یہ کہ پورے ملک کی باگ دوڑ اکثریت  یعنی ہندوؤں کے حوالے کر دی جائے . ظاہر ہے اگر آپ نے مسلم لیگ کا ساتھ نہ دیا تو غیر مسلم اکثریت سارے ملک پر اور مسلمانوں پر مسلط ہو جائے گی .

جواب از امیر جماعت : ان سوالوں کا واضح مطلب یہ ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کی اس قومی تحریک کا ساتھ دیا جائے  اور جب یہ حالات ختم ہو جائیں  تو پھر ان کا ساتھ چھوڑ دیا جائے ، کیونکہ اسے تو سائل صاحب خود بھی تسلیم کرتے ہیں  کہ یہ تحریک غیر اسلامی ہے  . مگر میں ان کو یقین  دلاتا ہوں کہ جس قسم کے حالات دیکھ کر وہ ہم سے اس وقت یہ مطالبہ کر رہے ہیں ، ایسے حالات کبھی ختم نہ ہوں گے . مسائل پر مسائل پیدا ہوتے چلے جائیں گے  اور ہر مسئلہ پہلے مسئلے سے شدید تر ہو گا  اور آپ کہیں بھی لکیر نہیں کھینچ  سکیں گے کہ فلاں  حد تک تو ہم ان قومی تحریکوں کا ساتھ دیں گے اور وہاں پہنچ  کر ان کا ساتھ چھوڑ دیں گے  ۔ یہ تو ہے اس سوال کر ایک رخ ۔دوسرا رخ جو اس سے کہیں زیادہ قابل غورہے  وہ یہ ہے کہ جب آپ ایک تحریک کو خود غیر اسلامی مان رہے ہیں  تو پھر کس منہ سے  ایک مسلمان  سے یہ مطالبہ کرتے ہیں  کہ اس کا ساتھ دیا جائے . جن مسائل اور مصائب  کا اس قدر رونا رویا جا رہا ہے ، یہ مسائل اور مصائب  سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتے  اگر مسلمان اسلام کے فی الواقع سچےنمائندے  ہوتے . اور اگر مسلمان اب بھی سچے مسلمان بن جائیں  تو آج ہی یہ سارے مسائل ختم ہو جاتے ہیں . یہ لوگ ہندوستان کے ایک ذرا سے کونے میں پاکستان بنانے کو اپنا انتہائی مقصد بنائے ہوئے ہیں  ، لیکن  اگر یہ فی الوقع  خلوصِ قلب سے اسلام کی نمائندگی کے لیے کھڑے ہو جائیں تو سارا ہندوستان پاکستان بن سکتا ہے  اور اس میں ایک لادینی جمہوری حکومت یا عوامی  پارلیمنٹری حکومت نہیں بلکہ خالص خدا کی حکومت کتاب و سنت کے اصولوں  پر قائم ہو سکتی ہے .

اسلام کی لڑائی اور قومی لڑائی ایک ساتھ نہیں لڑی جا سکتی . اگر لوگ اسلام اور اسلامی طریق کار کو اپنی خواہشات ِ نفس کے خلاف پا کر ان کو ترک کر دینا چاہتے ہیں تو ہیر پھیر کے راستوں سے آنے کی بجائے صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ اللہ اور رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو چھوڑئیے  اور ہمارے نفس کا کام میں حصہ لیجئے ." (روداد جماعت اسلامی )

اس پوری بحث  کا خلاصہ حسب ِ ذیل ہے  :

اول یہ  اسلامی نظام حکومت اور حکومت الہٰیہ کسی معاشرے میں اوپر سے لا کر جڑ دینے والی چیز نہیں ہے بلکہ اس کے قیام کے لیے ناگزیر ہے کہ پہلے معاشرے میں اسلامی افکار  ونظریات اور اس کے اصولوں کے مطابق  ایک ہمہ گیر ذہنی و فکری .. اور عملی و اخلاقی انقلاب برپا کیا جائے . جب یہ انقلاب معاشرے میں اس درجہ جڑ پکڑ جا تا ہے  کہ کسی اور نظام حکومت کا اس کے  اوپر  مسلط رہنا  ناممکن  ہو جائے تو  آپ سے آپ ایک فطری طریقے پر نظام  حکومت میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے .

دوم یہ کہ  تحریک پاکستان  اور نظریہ پاکستان ۔سراسر غیر اسلامی تصورات ہیں ۔ اس لیے کہ مسلم لیگ کی تحریک ایک قوم پرست تحریک ہے اور  اس کے تحت اگر پاکستان  حاصل کر بھی لیا گیا  تو وہ زیادہ  سے زیادہ ایک قومی ریاست تو بن جائے گا لیکن اسلامی ریاست ہر گز نہ ہوگا .

سوم یہ کہ پاکستان کی قومی حکومت کسی طرح بھی ، قیام ِ نظام ِ اسلامی (اقامت دین ) میں ممدو معاون نہ ہوگی  بلکہ غیر مسلموں کی قومی حکومت کے مقابلے میں مسلمانوں کی یہ قومی حکومت اس کام کے راستے میں کچھ زیادہ ہی رکاوٹ ثابت گی اور اگر پاکستان قائم ہو گیا تب بھی ہمیں نظام ِ اسلامی  کے قیام کے لیے اسی فطری طریقِ کار پر کام کر نا ہوگا  کہ پہلے معاشرے میں ایک بنیادی تبدیلی برپا کریں  اور اس کے بعد نظام ِ حکومت  میں تبدیلی کی توقع کریں۔

قارئین کرام : یہ تھی پالیسی جماعت اسلامی کی تقسیم ہند سے قبل .. مگر تاریخ آپ کے سامنے ہے کہ جماعت  نے بے صبری کا مظاہر ہ کیا .. اوررائے  عامہ  کو ہموا ر کرنے کی کوئی خاص منصوبہ بندی  نہ کی ... انہی  پیدائشی مسلمانوں کو حقیقی مسلمان  گردانتے ہوئے ... مغربی جمہوریت  کے ذریعے اسلامی حکومت قائم ہونے کے خواب دیکھنے شروع کر دیئے . .. الیکشن  میں کامیاب ہونے کے لیے طرح طرح کے اتحاد اور شرائط  مان کر اپنی جماعت کے اصولوں کو بھی قربان کر دیا .. . نتیجہ آپ کے سامنے ہےکہ ... آج 62 سا ل کے بعد بھی سوائے  صوبہ پختون خواہ کی چند سیٹوں کے .... بقیہ پورے پاکستان میں  بغیر اتحاد کے ایک سیٹ بھی نہیں  لے سکتے .... اور دعوی ہے  جمہوریت کے ذریعے سے ہی اسلامی انقلاب  کا ... اگر اپنی پالیسی پر نظر ثانی کا کہا جائے تو .. حضرت نوح  علیہ السلام کی مثال دے کر خاموش کر ا دیا جاتا ہے ... شاید جماعت کی شورٰ ی  پر وحی اترتی ہے  جو اسی راستے پر ہی چل کر منزل تک پہنچنے پر یقین رکھتے ہیں ...ماضی ،حال کو دیکھیں  تو مستقبل بھی کچھ الگ نظر نہیں آتا... یہی حال اس وقت باقی دینی جماعتوں کا بھی ہے .. . کسی کی نیت پر شک تو نہیں کیا جا سکتا .. سب کا فہم الگ الگ ہے ... بہرحال مجھے جو بہتر لگا ہے وہ آپ کے سامنے رکھ  دیا ہے ... اب  فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ بہتر راستہ کو ن سا ہے ؟؟.... اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب  کو اس راستے پر اکھٹا کر دے کہ جس پر چل کر ہم اپنی منزل کو پا سکیں ۔ان شاء اللہ ۔ آمین

(بحوالہ تحریک جماعت اسلامی  ایک تحقیقی جائزہ از ڈاکٹر اسرا ر ااحمد . ص50 تا 78)

2 تبصرے

  1. بے شک صحح بات ہے کہ تقسیم ہند سے قبل کے نسلی اور قولی مسلمانوں سے ہی جماعت نے ووٹوں کی بھیک مانگی شروع کر دی تھی ۔ تو پیدائشی مسلمانوں کی تربیت کے بغیر جماعت اسلامی کا ان سے ووٹ مانگنا بالکل غلط تھا اور ہے ۔ مگر صد افسوس کے ہماری دینی جماعتیں ابھی تک انہیں پیدایشی مسلمانوں سےامید یں لگائیں ہوئےہیں کہ یہ ہمیں اسمبلی میں اکثریت کے ساتھ بھیجیں گے ۔ اللہ ہمیں ہدایت دے ۔ آمین

    جواب دیںحذف کریں
  2. جی واقعی جماعت اسلامی اب بالکل ایک مذہبی پارٹی کم ، سیاسی پارٹی زیادہ بن گئ ہے

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی