مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے نام از پروفیسر حافظ عبداللہ بہاولپوری

  مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے نام از پروفیسر حافظ عبداللہ بہاولپوری

 (پروفیسر حافظ عبداللہ بہاولپوری کی تقریبا 35 سال قبل  کی لاجواب تحریر)

 بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

مولانا پاکستان آپ کی آنکھوں کے سامنے بنا اور ٹوٹا اور اب جو پاکستان کے حالات ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی اس شکست و ریخت کا اصل سبب کیا ہے‘ اور اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ مولانا یہ تو ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کی روح اسلام تھی‘ اگر اسلام کا تصور نہ ہوتا تو پاکستان کبھی معرض وجود میں نہ آتا۔ آخرمشرق کو مغرب 

مولانا یہ تسلیم ہے کہ آپ کی جماعت نے بھاگ دوڑ کر کے اسلامی دستور منظور کروائے اور ولی خان جیسے سیکولر کو بھی اس مقصد کی خاطر اپنے ساتھ ملایا اور لوگوں کی باتیں سنیں ‘لیکن ان دستوروں کا نتیجہ کیا نکلا؟ اسلام کو تو کوئی فائدہ نہ ہوا ملک میں اسلام تو نہ آیا۔ مولانا اسلامی دستور منظور کروانے سے کیا ہوتا ہے‘ جب اس کو نافذ کرنے کی طاقت نہ ہو۔ جب اس پر عمل نہ کروایا جا سکے۔ کسی بت کدے میں قرآ ن رکھ دینے سے یا کسی کافر کے ہاتھ میں قرآن تھما دینے سے وہ مسلمان نہیں ہو جاتا۔ بھٹو نے اسلامی دستور کو بھی مان لیا۔ پاکستان کو بھی اسلامی جمہوریہ منظور کرلیا‘ لیکن اس سے کیا وہ مسلمان ہو گیا‘ یا پاکستان میں اسلام آ گیا؟ بلکہ بھٹو نے جیسے چاہا اس اسلامی دستور کو مروڑا جیسے چاہا پاکستان کو توڑا۔ مولانا اول تو پاکستان کو دستوروں کی ضرورت ہی نہ تھی کیوں کہ یہ بنا اسلام کے لیے تھا اور اسلام اس کا بنا بنایا دستور تھا‘ لیکن اگر رسمی طور پر دستور بنانا ضروری ہی تھا تو پھر الیکشن کروانے اور اسمبلیاں بنانے کی ضرورت نہ تھی۔ کیوں کہ الیکشن ہوتے ہیں اسمبلیوں کے لیے اور اسمبلیاں ہوتی ہیں قانون سازی کے لیے ‘ لیکن اسلام ایک بنا بنایا قانون ہے۔ اس کو ان تکلفات کی کیا ضرورت ۔ مولانا ہماری ضرورت قانون بنانا نہ تھی کہ ہم الیکشن کروا کراسمبلیاں بناتے پھرتے ۔ ہماری ضرورت تو اﷲ کے بنائے ہوئے قانون کو نافذ کرنا تھا۔ ہمیں اسمبلیاں نہیں بلکہ اسلا م کو نافذ کرنے والا مرد مجاہد چاہیے تھا۔ آپ اور آپ کی جماعت آج تک یہی سمجھتے رہے کہ اسمبلیوں کے ذریعے اسلام نافذ ہو جائے گا ۔ اس لیے الیکشنوں کے پیچھے پڑے رہے اور تیس سال کا طویل عرصہ ضائع کر دیا۔ حال آنکہ یہ آپ کی ڈبل غلطی تھی جیسا کہ تیس سال کے تجربے نے بتا دیا ‘ الیکشنوں سے بھٹو تو آگیا جو اسلام کا دشمن تھا‘لیکن اسلام نہ آیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ بھٹو کے آنے سے آپ کی جماعت والے سمجھ جاتے کہ الیکشنوں کا راستہ کم از کم پاکستان میں اسلام لانے کا راستہ نہیں بلکہ اسلام کو برباد کرنے کا راستہ ہے ‘ لیکن آپ کی جماعت شکست پر شکست کھانے اور ناکامی پرناکامی کا منہ دیکھنے کے باوجود آج تک الیکشنوں کے ہی پیچھے لگی ہوئی ہے۔پہلے الیکشن ہوا جس سے جماعت اسلامی کو بڑی امیدیں تھیں تو بھٹو اور مجیب آئے اور پاکستان ٹوٹا۔ اب الیکشن ہوگا تو پتا نہیں کیا ہوگا؟

مولانا پاکستان کی سیاست میں تقریبا تیس سال سے آپ کا عمل دخل ہے لیکن آج بھی پاکستان اسلام سے اتنا ہی بلکہ اس سے بھی دور ہے جتنا قرار داد مقاصد سے پہلے تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ آپ کے دینی لٹریچر نے ملک میں ایک ذہن پیدا کر دیا ‘ لیکن اس سے ملک میں اسلام تو نہ آیا اور نہ آنے کی امید ‘ کیوں کہ وہ ذہن اسلامی کے ساتھ ساتھ جمہوری بھی ہے۔ خالص اسلامی نہیں۔ اسلام خالص اسلامی ذہن رکھنے والے لوگ ہی لا سکتے ہیں جن کے ذہنوں میں ذرا بھی غیر اسلامی اثر ہو وہ صحیح اسلامی انقلاب نہیں لا سکتے۔ آج جو اسلام ناکام نظر آتا ہے تواس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خالص نہیں۔ مذہبی لوگوں نے اپنے مذہبی سلسلوں کو اسلام سمجھ لیا۔ سیاسی لوگوں نے جمہوریت اور سوشلزم کو اسلامی بنا لیا۔ حال آنکہ یہ اسلام کا بگاڑ ہے۔ اسلام اپنا اعجاز دکھاتا ہی اس وقت ہے جب کہ خالص ہو۔ جب یہ خالص تھا‘ مذہبی اور سیاسی ملاوٹوں سے پاک تھا تواس نے بڑے بڑے معجزات دکھائے۔ آئندہ بھی جب خالص ہوگا تو اپنے اعجاز دکھائے گا۔ اسی لیے ضروری ہے کہ اسلامی انقلاب لانے والے ذہن کم ازکم مغربی اثر سے بالکل پاک ہوں۔مولانا آپ کی ناکامی کی بڑی وجہ آپ کا نظریہ جمہوریت ہے‘ جو حقیقت میں کفر سے مستعار ہے ۔ ایک مسلمان کا جمہوریت کو اسلامی کہ کر اپنانا اصل میں کفر کے آگے Apologyہے جو اس کے ذہن کے مرعوب اور متاثر ہونے کی دلیل ہے۔

مولانا آپ نے اپنے لٹریچر کے ذریعے بہت کام کیا‘ جس سے ایک طرح کا ذہنی انقلاب آ گیا۔ لیکن وہ ذہنی انقلاب قریباً ایسا ہی ہے جیسے تبلیغی جماعت کا روحانی انقلاب۔ کیوں کہ اس سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہ ہوا۔ پاکستان کافر کا کافر ہی رہا۔ مولانا جب پاکستان بن گیا تھا اور قرار داد مقاصد کے بعد یہ آپ کے لیے حلال ہو گیا تو سب سے بڑا کام پاکستان کو مسلمان بناناتھا‘ جس کے لیے اسلامی ریاست کی ضرورت تھی تاکہ ملک میں اسلام آتا۔ آپ جمہوریت کے پیچھے پڑے رہے اور تبلیغی جماعت والے سیاست سے کنارہ کش ہو کر۔ رہبانیت کے پیچھے لگے رہے اور نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں کفر کی حکمرانی رہی اور اسلام نہ آیا۔ مولانا اسلام اپنی فطرت ہی میں حاکم ہے۔ حکومت اسلام کا حق ہے۔ جو لوگ معذرت خواہ(Apologetic) ہوں وہ اسلام نہیں لا سکتے کیوں کہ وہ اسلام کا حق اسلام کو نہیں دے سکتے۔ اسلام وہ لا سکتے ہیں جو جمہوریت سے متاثر نہ ہوں‘ کفر سے مرعوب نہ ہوں‘ نظریہ خلافت پر ایمان رکھتے ہوں۔ اسلام کاحق ادا کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہوں۔ خواہ انھیں یہ حق کفر سے چھین کر دینا پڑے۔ خواہ اس حق کے لیے کتنی ہی قیمت ادا کرنی پڑے۔یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی اور تبلیغی جماعت اپنی ان تھک محنتوں کے باوجود کچھ نہ کر سکے۔ اخلا ص بھری گشتیں‘ مسکین بن کر تبلیغی جماعت والے بھی بہت کرتے رہے۔آئینی اجتماعات اور مظاہر ے یتیم بن کر جماعت اسلامی والے بھی بہت کرتے رہے‘ لیکن نتیجہ وہی رہا کہ دھاک کے تین پات ۔ ان کے ذہنوں میں رہبانیت ‘ ان کے ذہنوں میں جمہوریت۔ جب دونوں غیر اسلامی ‘ تو پھر اسلام کیسے آتا ۔

مولانا کوشش اسلامی جمہوریت کی کرنا اور توقع اسلام کی رکھنا ‘ جو بو کر گندم کاٹنے والی بات ہے۔ مولانا آپ کوشش خالص جمہوریت کی کرتے تو جمہوریت آتی‘ کوشش خالص اسلام کی کرتے تو اسلام آتا۔ آپ نے کوشش اسلامی جمہوریت کی ‘ نہ اسلام آیا ‘ نہ جمہوریت۔ اسلام تو اس لیے نہیں آیا کہ کوشش خالص اسلام کی نہ تھی۔ جمہوریت اس لیے نہ آئی کہ یہ کافروں کا نظام ہے ‘ کافروں میں ہی چلتا ہے‘ مسلمانوں میں نہیں چلتا۔ مولانا کیا مسلمانوں کے کسی ملک میں جمہوریت کامیاب ہے ؟ یہ کافروں کا نظام ہے ‘ اﷲ اس سے کافروں کو ہی ترقی دیتا ہے۔ مسلمان جو اﷲ کے دین کو چھوڑ کر کفر کی طرف دوڑتے ہیں اﷲ ان کی دنیا بھی برباد کر دیتا ہے ‘ انھیں جمہوریت سے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا۔ مسلمان کافر بن کر جمہوریت کو اپنائیں تو وہ بھی کافروں کی طرح جمہوریت سے ترقی کریں ‘ وہ مسلمان کہلا کر جمہوریت کو اپناتے ہیں اور اسلامی جمہوریت نام رکھتے ہیں۔ اﷲ انھیں اسلام سے بھی محروم کر دیتا ہے اور جمہوریت سے بھی۔ مولانا آپ اسلامی جمہوریت کے پیچھے لگے رہے ‘لیکن جب اسلامی جمہوریت نام کی خارج میں کوئی چیز نہیں تو وہ پاکستان میں کہاں سے آ جاتی۔ مولانا یہ جمہوریت ایک خالص کافرانہ نظام ہے ‘ کافروں نے ہی اسے ایجاد کیا ہے ‘ یہ اسلامی کیسے ہو سکتا ہے؟ کفر بھی کبھی مسلمان ہوا ہے ؟ کافر مسلمان ہو جائے تو ہو جائے ‘کفر مسلمان نہیں ہوتا۔ جیسے پلید پاک نہیں ہوتا‘ کفر تو باطل ہے اور باطل مٹنے والی چیز ہے۔ ( اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا)[17:الاسراء:81]اسلام باطل کو مٹانے کے لیے آیا ہے ‘ نہ کہ اس سے دوستی لگانے کے لیے کہ جمہوریت کو اسلامی بنا لے۔ مولانا یہ تو آپ کا اجتہاد ہے کہ اگر جمہوریت کے ساتھ چپکے سے اسلام کا لفظ لگا لیا جائے تو جمہوریت بھی جماعت اسلامی کی طرح اسلامی بن جاتی ہے‘ ورنہ جو چیز اسلام کی ضد ہو وہ اسلامی کیسے بن سکتی ہے؟ مولانا آپ کے اس اجتہاد کو دیکھ کر بھٹو جیسے دشمنان اسلام نے اسلامی سوشلزم اور اسلامی مساوات کے جوڑ جوڑے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب مودودی جیسا مجتہد اسلام اور مزاج شناس رسولؐ اسلامی جمہوریت کہ سکتا ہے تو ہم اسلامی سوشلزم اور اسلامی مساوات کیوں نہ کہیں؟ مولانا جمہوریت مستقل ایک علیحدہ نظام ہے اور اسلام ایک علیحدہ نظام ہے۔ جمہوریت کو کافروں نے ایجاد کیا ہے‘ اسلام اﷲ کا نظام ہے جو ساری کائنات میں جاری ہے۔ جمہوریت میں عوام ہی سب کچھ ہوتے ہیں‘ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں‘ خدا کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ جمہوریت میں عوام ہی طاقت کا سرچشمہ سمجھے جاتے ہیں ‘ ان کی حکمرانی ہوتی ہے‘ وہ اپنے معاشرے کا خود ہی دستور بنا تے ہیں ‘ خود ہی قانون ۔ جو پارٹی اکثریت میں ہو حکومت کرتی ہے ‘ جو اقلیت میں ہو وہ محکوم ہوتی ہے۔ اس طرح انسان ‘انسان پر حکومت کرتا ہے ۔ اسلام میں حاکمیت اعلیٰ اﷲ کی ہوتی ہے‘ سب انسان اس کے حکم کے تابع ہوتے ہیں راعی اور رعایا سب اﷲ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اسلام میں قانون اﷲ کا ہوتا ہے ‘ کوئی انسان کسی انسان پر اپنے قانون کے ذریعے حکومت نہیں کر سکتا۔ حکومت سب پر اﷲ کی ہوتی ہے۔ جمہوریت میں اکثریت جو چاہتی ہے کرتی ہے۔ جمہوریت میں حق ناحق‘ جائز ناجائز ‘ اچھا برا فی نفسہٖ کوئی چیز نہیں۔جو اکثریت منظور کرے ‘ وہ حق اور جائز ۔ حتی کہ اگر اکثریت لواطت(Sodomy)کو جائز قرار دے دے تو معاشرے میں وہ بھی جائز سمجھی جائے گی۔ جمہوریت میں اکثریت کو بالا دستی ہوتی ہے۔اکثریت اپنی اکثریت کے بل بوتے پر جو چاہے کرے ‘ حلال کو حرام کردے اور حرام کو حلال ‘ جمہوری نظام میں سب کچھ روا ہے۔ اسلام میں اقلیت اور اکثریت کوئی چیز نہیں۔ اسلام میں طاقت حق کو حاصل ہوتی ہے جو اﷲ کا قانون ہے۔ حق اقلیت میں ہو یا اکثریت میں۔ بالادستی حق کی ہوتی ہے۔ جو حق نہیں‘خواہ وہ اکثریت میں ہو ‘ اسلام میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ قرآن مجید میں ہے( وَ لَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَھْوَاءَ ھُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ )[23:المومنون:71]یعنی اگر حق عوام کے تابع ہو جائے ‘ خواہ وہ اکثریت میں ہی ہوں تو سارا نظام درہم برہم ہوجائے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلامی نظام میں جمہوریت چل ہی نہیں سکتی۔ اسلام میں جوں ہی جمہوریت آئی اسلامی نظام درہم برہم ہوا۔ اسلام حق کی برتری چاہتا ہے۔ جمہوریت جمہور عوام کی فساد ۔

سے ‘ پٹھان کو سندھی سے ‘ بلوچ کو پنجابی سے کس نے جوڑ ا ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بنا تو اسلام کی بنیا د پر‘ٹوٹا تو

اس کے انعدام پر۔ اسلام کے جذبے نے پاکستان بنا دیا۔ عصبیتوں کے ابال نے اسے توڑ دیا۔ مولانا جب یہ مسلم ہے کہ پاکستان کی روح اسلام ہے۔ اس سے اس کی زندگی ہے اور اس کے بغیراس کی موت تو ثابت ہو اکہ پاکستان کی اس شکست و ریخت کا اصل سبب اسلام کا نافذ نہ ہونا ہے جس کی ذمہ داری ان جماعتوں پر آتی ہے جو پاکستان میں اسلام لانے کی دعو ے دار تھیں۔ سرفہرست ان میں آپ کی جماعت ہے اور جماعتوں کے بارے میں تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ مخلص نہ تھیں یا اسلام سے ہی بے خبر تھیں یا سیاست سے بے بہرہ تھیں۔ بالغ النظر نہ تھیں۔ ان کا ماضی نہ تھا‘ ان میں تنظیم نہ تھی ‘ یا کوئی اور خرابی تھی لیکن آپ کی جماعت کے بارے میں کیا کہا جائے جو خود اسلامی ا ور قائد مفکر اسلام جن کے اسلام میں شک ‘ نہ اخلاص میں شبہ ‘ جن کا ماضی دارالاسلام جن کا حال دعوت اسلام ‘ نہ تنظیم کی خرابی‘ نہ قیادت کی کم یابی جو سیاست میں بھی بام اوج پر۔ لیکن ان تمام فضیلتوں کے باوجود ملک میں اسلام نہ لا سکی۔

جمہوریت میں مذہب کوئی چیز نہیں‘ مذہب ہر آدمی کا اپنا ذاتی اور پرائیویٹ مسئلہ ہے۔ ہر کوئی جومرضی مذہب رکھے کوئی پابندی نہیں۔ جمہوریت کی نگاہ میں اسلام اور کفر دونوں برابر ہیں۔ جمہوریت لادینیت کا دوسرا نام ہے۔ جمہوریت کا ذہنوں پر یہ اثر ہوتا ہے کہ آدمی سیکولر سا ہو جاتا ہے اور نہیں تو دینی غیرت تو ضرور ختم ہو جاتی ہے۔ اسلام مستقل ایک مذہب ہے‘ جس کی بنیاد وہی اﷲ کے تصور پر ہے۔ اسلام کی نگاہ میں مذہب صرف اسلام ہے ‘ باقی سب باطل ہے۔( فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلاَّ الضَّلاَلُ)[10:یونس:32] اسلامی نظام میں باطل کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ باطل کو مٹانا اسلام کا فرض ہے اور یہی جہاد ہے جو قیامت تک جاری ہے۔ مولانا جب جمہوریت اور اسلام میں اتنا تضاد ہے تو جمہوریت اسلام کیسے ہو سکتی ہے۔

اگر کہا جائے وہ جمہوریت اسلام کیوں نہیں کہلا سکتی جس کے عوام مسلمان ہوں اور اسلام چاہتے ہوں تو کہا جائے گا اگر عوام مسلمان ہوں اور اسلام چاہتے ہوں توا سے جمہوریت کہنا ہی درست نہیں۔ کیوں کہ جہاں صحیح معنوں میں اسلام کی حکمرانی ہے وہاں جمہوریت ہو ہی نہیں سکتی۔ اگر کہا جائے اس اعتبار سے وہ اسلامی ہے کہ اسلامی نظام چلانے والے افراد کا انتخاب جمہور عوام کرتے ہیں۔ کہا جائے گا ‘اگر یہ صورت ہے کہ تو وہ جمہوریت ہے ‘ اسے اسلامی کہنا ٹھیک نہیں کیوں کہ جب اسلام میں الیکشن کا تصور ہی نہیں تو جوالیکشن چاہتے ہیں وہ اسلامی نظام نہیں چاہتے۔اسلام یہ حق نہیں دیتا کہ اسلامی نظام چلانے والوں کا انتخاب عوام کریں۔ اسلامی نظام چلانے والے افراد تو وہی ہو سکتے ہیں جوا سلا م اور اس کے تقاضوں کو خوب سمجھتے ہوں۔ چوں کہ عوام میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی اس لیے اس کا انتخاب عوام نہیں کر سکتے۔ لہٰذا الیکشنوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ صحیح اسلام کو نافذ کرنے والے افراد نہ پہلے کبھی جب کہ اسلام کی گاڑی بہت اچھی چلتی تھی ‘ الیکشنوں سے منتخب ہوئے اور نہ آج ہو سکتے ہیں۔ مولانا آپ اور آپ کی جماعت تقریباً نصف صدی سے پاکستان میں دعوت اسلامی کا کام کر رہے ہیں۔ باہر کی دنیا تک جانتی ہے کہ پاکستان میں جماعت اسلامی ہی واحد جماعت ہے جو ملک میں اسلامی انقلاب لانا چاہتی ہے‘ لیکن جب الیکشن ہوتا ہے تو عوام جماعت اسلامی کی بجائے ووٹ بھٹو کو دیتے ہیں ‘ بلکہ جماعت اسلامی کی ضمانتیں ضبط ہوتی ہیں۔ حال آنکہ پاکستان کے عوام مسلمان ہیں اور نظام اسلام اور اسلام زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں ‘ لیکن ان کو یہ تمیز نہیں کہ اسلام کا خیرخواہ بھٹو ہے یا مودودی ؒ ۔ ووٹ بھٹو کو دیتے ہیں یا مودودی کو۔ مولانا جب بھی الیکشن ہوں گے تو عوام اپنی پسند دیکھیں گے ‘ عوام نے جو بھٹو کو چنا تو اس لیے نہیں کہ بھٹو میں کوئی خوبیاں تھیں بلکہ اس لیے کہ بھٹو عوام جیسا تھا ۔ جو خصلتیں عوام میں پائی جاتی ہیں یا عوام چاہتے ہیں وہ سب بھٹو میں موجود تھیں ‘ کوئی برائی ایسی نہیں جو عوام میں پائی جاتی ہو اور بھٹو میں نہ ہو۔ بھٹو عوام کاآئینہ تھا اور عوام اس کا پرتو۔۔۔ بھٹو عوام کا پورا خلاصہ اور نچوڑ تھا بلکہ عوام کی صحیح کاپی (True Copy) تھا۔

نظام اسلام چلانے والوں کا انتخاب عوام کے ہاتھ میں دینا جمہوریت میں تو جائز ہو سکتا ہے‘ اسلام میں جائز نہیں‘ کیوں کہ عوام کالانعام ہوتے ہیں۔ ان کو دھونس دھاندلی ‘ دھوکا سے ہر وقت ورغلایا جا سکتا ہے۔ وہ کبھی صحیح انتخاب نہیں کر سکتے۔ یہ کام تو وہی لوگ کر سکتے ہیں جو صاحب کردار ہوں اور خود اسلام میں اجتہادی بصیرت رکھتے ہوں۔ عوام کے سپرد یہ کام کرنا ایسی ہی حماقت ہے جیسے کسی بڑے کارخانے کی تنصیب کاکام دیہاتیوں کے سپرد کر دینا۔ عوام کو یہ حق دینا گویا اسلام کو عوام کے تابع کرنا ہے کہ وہ جیسا اسلام چاہتے ہیں ویسے نمائندے منتخب کر لیں۔ اصغرخاں جیسے پہلے ہی کہتے ہیں کہ ہم غریبوں کا اسلام لائیں گے ‘ مزدوروں کا اسلام لائیں گے۔ ہم عوام کا اسلام لائیں گے۔ انھیں یہ معلوم نہیں کہ اسلام ایک ہے۔ اسلام مختلف اور کئی نہیں کہ عوام کا اسلام اور ہو اور مزدور کا اسلام اور ہو اور غریب کا اسلام اور ہو۔ اصل میں یہ لوگ اپنی ذہن کی کجی کو بھی اسلام سمجھتے ہیں کیوں کہ آج کل کے مسلمانوں کا اسلام کے بارے میں نظریہ بڑا عجیب ہے‘ وہ سمجھتے ہیں جو کچھ مسلمانوں میں چل جائے وہ سب اسلام ہے۔ ان کے نزدیک مسلمان اسلام سے نہیں بنتے بلکہ اسلام مسلمانوں سے بنتا ہے۔ جو کچھ مسلمان کرتے جائیں وہ سب اسلام بنتا جاتا ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ اسلام اﷲ کا دین ہے ‘ انسانوں کا بنایا ہوا نہیں۔ اگر وہ خالص رہے ‘ ملاوٹ بالکل نہ ہو تو اسلام ہے‘ ذرا بھی ملاوٹ یا ردو بدل ہو جائے تو کفر ہو جاتا ہے۔ لوگ اسلام کے تابع رہیں تو مسلمان ہیں‘ اسلام کو اپنا تابع بنائیں تو کافر ہیں۔

اگر کہا جائے کہ جس معاشرے کے عوام سلجھے ہوئے مسلمان ہوں ان کو ووٹ کا حق کیوں نہ دیا جائے تو کہا جائے گا کہ جب اسلام میں الیکشن ہی نہیں تو ووٹ کا حق دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ صحابہؓ سے بہتر کون سا معاشرہ ہوگا ‘ لیکن عام صحابہ سے رائے نہیں لی جاتی تھی۔ خاص خاص صحابہ سے رائے لی جاتی تھی۔ جمہوری نظام میں ہر بالغ کوحق رائے دہی حاصل ہوتا ہے ۔ مرد ہو یا عورت۔ یہ جمہوریت کی بنیاد ہے۔ اسلام میں ایسا نہیں۔ اسلام میں رائے صاحب الرائے سے ہی لی جاتی ہے اور رائے دینا ہر ایک کا حق نہیں۔ اسلام اپنے افراد کا انتخاب خاص لوگوں میں سے کرتا ہے اور وہ خاص لوگ اسلامی سوسائٹی کی کریم ہوتے ہیں جو کریم کی طرح اپنی صلاحیتوں کی بدولت از خود سوسائٹی کے اوپر آ جاتے ہیں۔ جمہوری مصنوعی طریقوں سے نہیں لائے جاتے۔اس متفق علیہ حدیث میں اسی قدرتی طریقہ انتخاب کی طرف اشارہ ہے۔ صحابہ نے پوچھا :’’اَیُّ النَّاسِ اَکْرَمُ یَارَسُوْلَ اﷲِ ‘‘ یعنی لوگوں میں قابل قدر کون ہوتا ہے‘ جس کو ہم اپنا قائد بنا سکیں۔ آپ ؐنے فرمایا: ((عَنْ مَعَادِنِ الْعَرْبِ تَسْأَلُوْنِیْ قَالُوْا نَعَمْ فَقَالَ خَیَارُھُمْ فِی الْجَاھِلِیَّۃِ خِیَارُھَمْ فِی الْاَسْلاَمِ اِذَا فَقِھُوْا)) ۱ یعنی انسان کانوں کی مانند ہیں۔ جیسا سونا ‘ چاندی کان میں بھی سونا چاندی ہیں اور باہر آکر بھی سونا چاندی۔ اسی طرح جو لوگ کفر کے معاشرے میں قائد قسم کے ہوتے ہیں وہ جب اسلام میں منجھ جاتے ہیں اور نکھر جاتے ہیں تو اسلامی معاشرے میں بھی وہ قائد ہی بنتے ہیں۔ کام کرنے والے لوگ بغیر الیکشن کے بھی سوسائٹی میں نمایاں ہوتے ہیں۔

مولانا صحابہؓ میں عشرہ مبشرہ کو کوئی الیکشن اوپر لایا تھا یا وہ اپنی فطری صلاحیتوں کی وجہ سے خود بخود اوپر آ گئے تھے۔ مسلم لیگ میں جناح صاحب اور ان کے خاص ساتھی کیسے اوپر آئے تھے۔ مولانا آپ اپنی جماعت کو ہی لے لیں۔ آپ کو یہ درجہ اپنی جماعت میں الیکشنوں کی بدولت ملا ہے یا خدادا د صلاحیتوں اور اپنی خدمات کی وجہ سے۔ بنی اسرائیل میں اقامت دین کی خاطر جب تنظیم نو ہوئی تو کیا ان کے بارہ نقیب الیکشن کے ذریعے منتخب ہوئے تھے یا وہ قبائلی سردار ہی تھے جن کو نقیب بنادیا گیا تھا۔

مولانا تاریخ شاہد ہے کہ پوری اسلامی تاریخ میں الیکشن کبھی نہیں ہوئے۔ اگر اسلام میں یوں الیکشن ہوتے تو شاید حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی خلیفہ نہ بن سکتے۔ انصار کے ووٹ بڑھ جاتے‘ قریش کے کم ہو جاتے۔ اسلام تو عوام کے ووٹوں کو دیکھتا ہی نہیں خواہ وہ عوام صحابہؓ ہی ہوں۔ یہ بیماری تو جمہوریت میں ہی ہے کہ ہر بالغ کا ووٹ‘ اسلام میں خلیفہ کا انتخاب صرف اصحاب شوریٰ کا کام ہے اور شوریٰ انھیں خاص خاص لوگوں کی ہوتی ہے جو سوسائٹی کی کریم ہوتے ہیں۔ وہ اپنی خوبیوں کی بدولت سوسائٹی میں نظر آتے ہیں۔ اسلام اپنے افراد کے انتخاب میں جو اصول ملحوظ رکھتا ہے وہ قرآنی آیات و احادیث سے واضح ہیں۔ مثلا یہ کہ وہ متقی ہوں‘ علم وعمل میں بھی ان کا مقام ہو ‘ طاقت و جرآت بھی رکھتے ہوں تاکہ کوئی اقدام کر سکیں۔ صبر و برداشت بھی ہو۔ انتظامی صلاحیتوں کے بھی مالک ہوں ۔ انتخاب کے وقت پہلی خدمات کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے۔ جن سے ان کی تجربہ کاری اور ایثار کا بھی پتا لگ جاتا ہے اور کوئی وجہ ترجیح ہو تو اسے بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ بعض دفعہ ایک وجہ ترجیح ایسی ہوتی ہے جو سب وجوہات پر غالب ہوتی ہے۔ اسلام میں جمہوریت کا کوئی تصور نہیں کہ اسلامی جمہوریت کا سوال پیدا ہو۔ اسلام میں توخلافت ہے جس میں حاکم اعلیٰ اﷲ ہوتا ہے اور مسلمان اس کا خلیفہ۔ خلیفہ کا کام اﷲ کے حکم کو نافذ کرنا ہوتا ہے ‘ اپنے اوپر بھی اور دوسروں پر بھی ۔ جو بھی یہ کام کرے وہ اﷲ کا خلیفہ ہے۔ اس کو لوگوں نے منتخب کیا ہو یا وہ بعض حالات کے تحت خود آ گیا ہو جیسا کہ پاکستان کی حالت کو دیکھ کر جنرل ضیاء نے کیا۔ اگر ضیاء کی قسمت اچھی ہوتی اور وہ جمہوری نہ ہوتا اور اﷲ کے دین کو نافذ کر دیتا تو وہ یقیناًجائز اور شرعی خلیفہ ہوتا ‘ لیکن ستیاناس ہو اس جمہوریت کا‘ کہ اس نے مسلمانوں کو بے کار بنا دیا ہے۔ ان کے ذہنوں کو ایسا بگاڑا ہے کہ اب وہ صحیح اسلامی سوچ سے بھی عاری ہو گئے ہیں۔ اﷲ نے ضیاء کو بہترین موقع دیا تھا۔ اگر اس کا ذہن اسلامی ہوتا تو وہ کبھی بزدلی نہ دکھاتا۔ ضرور اسلام نافذ کر دیتا‘ لیکن اس کا ذہن جمہوری تھا ۔ وہ ڈرتا رہا کہ میں ناجائز طریقے سے آیا ہوں ‘ میں یہ کام نہیں کر سکتا۔ ادھر مفتی محمود صاحب اور جماعت اسلامی وغیرہ بھی جمہوری ۔ ان کا مذہب بھی وہی کہ پہلے جمہوریت ‘ پیچھے اسلام۔ پہلے الیکشن پھر کوئی اور بات۔ جمہوریت نے سب کی مت مار دی ہے۔ کیا ضیاء اور کیا اتحاد والے سب جمہوری انداز سے سوچتے ہیں۔ ان کے نزدیک حکومت وہی کر سکتا ہے جو عوام کا نمائندہ ہو ‘ جو عوام کا نمائندہ نہ ہو وہ حکومت نہیں کر سکتا۔ یہ جمہوریت ہی تھی کہ میاں طفیل صاحب امیر جماعت اسلامی نے بھٹو کو تو اپنے غیر مشروط تعاون کا یقین دلایا کہ اگر وہ اسلام نافذ کرے تو وہ اس کے ساتھ ہیں۔ لیکن ضیاء کو یہ یقین نہ دلایا بلکہ ضیاء سے یہی مطالبہ کرتے رہے کہ الیکشن کروا کر جلدی چھٹی کرو۔ اسلام عوام کے نمائندے ہی نافذ کریں گے۔

مولانا مغرب جو جمہوریت پر زور دیتا ہے تو اس کا مقصد یہی ہے کہ مسلمانوں کے ذہنوں کو خراب کیا جائے ‘ ان کو اسلام سے دور ہی نہیں بلکہ متنفر کیا جائے تاکہ وہ اسلام کی طرف نہ لوٹیں۔ اسی کا اثرہے کہ آج قریباً ہر تعلیم یافتہ مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام کوئی جامع نظام نہیں کیوں کہ اس کا اپنا کوئی سیاسی نظام نہیں۔ کچھ کہیں سے مستعار ہے ‘ کچھ کہیں سے۔

مولانا یہ جمہوریت اسلام کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے کیوں کہ جمہوری نظام میں کسی ملک میں اس وقت تک اسلام نافذ نہیں کیا جا سکتا جب تک وہاں کے عوام نہ چاہیں اور اگر عوام چاہتے بھی ہوں تو عوام کا نمائندہ ہی اسلام نافذ کر سکتا ہے جو عوام کا نمائندہ نہ ہو وہ اسلام نافذ نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی غیر نمائندہ شخص حکومت پر قبضہ کر کے اسلام نافذ کرنا چاہے تو جمہوریت میں یہ جائز نہیں بلکہ جو غیر جمہوری طریقے سے مسلط ہو جائے گا وہ غاصب ہے ۔ مولانا آپ کے لفظوں میں اس کی مثال اس چوکیدار کی ہے جو چوکیدارہ کرتے کرتے مکان پر ہی قبضہ کر لے۔ جمہوری نظام میں اس طرح اسلامی فتوحات بھی نہیں ہو سکتیں۔ جب فتوحات ختم تو جہاد بھی ختم۔ مسلمان تو مرزا قادیانی کے پیچھے پڑے رہے کہ وہ جہاد کے خلاف ہے حال آنکہ جمہوریت میں سب سے زیادہ جہاد کے خلاف ہے۔ نہ جہاد بالقلم جائز‘ نہ جہاد باللسان جائز۔ جہاد بالسیف کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مولانا کیا یہ حقیقت نہیں کہ جب سے مسلمانوں میں یہ جمہوریت آئی ہے مسلمانوں کے دلوں سے جہاد کا جذبہ بالکل نکل گیا ہے۔ مسلمان بے غیرت ہو کر رہ گئے ہیں۔ فتوحات جتنی بھی ہوئیں ‘ خلافت و ملوکیت کے دور میں ہی ہوئیں۔ جمہوریت کے دور میں مسلمان پیچھے تو ہٹے ہیں آگے ایک قدم نہیں بڑے۔مولانا اب آپ سے دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ ایک مسلمان کسی ملک کو فتح کرکے وہاں کے عوام کی مرضی کے علی الرغم اس ملک میں اسلام نافذ کر سکتا ہے یا نہیں؟ اگر وہ کر سکتا ہے تو ضیاء یا کوئی اور پاکستانی فوجی پاکستان پر مسلط ہوکر اسلام نافذ کیوں نہیں کر سکتا۔اگر ضیاء جیسے کے لیے جائز نہیں کہ پاکستان پر قابض ہو کر اسلام کو نافذ کرے تو پہلے مسلمان فاتحین کے لیے یہ کیوں کر جائز تھا کہ وہ وہاں کے عوام کی مرضی کے خلاف قبضہ کر کے اسلام نافذ کریں اور اگر ان کے لیے بھی جائز نہیں تھا بلکہ ان کا یہ فعل غیر جمہوری اور غیر آئینی تھا تو ان مسلمان فاتحین کے بارے میں آپ کیا فتویٰ دیں گے‘ جو ملک پر ملک فتح کرتے چلے گئے اور اسلامی حکومتیں قائم کرتے گئے ۔ کیا وہ اسلام کے ہیرو تھے یا غاصب و ڈاکو جیسا کہ مغرب والے کہتے ہیں ؟

مولانا مغرب اپنی جمہوریت کے ذریعے یہی تو مسلمانوں کو سکھانا چاہتا ہے کہ مسلمانوں کا ماضی بڑا داغ دار ہے۔ مسلمانوں میں ماضی میں آمریت و ملوکیت رہی ہے۔ جمہوریت نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان غیر مہذب تھے۔ ان میں وحشی پن اور بربریت پائی جاتی تھی۔ وہ ظالم و غاصب تھے‘ عوام کے احساسات و جذبات کا خیال نہیں رکھتے تھے وہ لوگوں کو غلام و لونڈی بناتے تھے۔ یہ جمہوریت ہی ہے جس میں عوام کو پوری آزادی حاصل ہوتی ہے۔ وہ اپنی مرضی کی حکومتیں بناتے ہیں اور اپنے اوپر آپ حکومت کرتے ہیں۔ جمہوریت کی بڑی برکات ہیں۔

مولانا جمہوریت اسلام کے مقابلے میں کافروں کا سیاسی نظام ہے۔ مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ اسلامی ملکوں میں جمہوری نظام ہی ہو تاکہ مسلمانوں کا رخ اسلام کی طرف نہ ہو۔ کفر کو معلوم ہے کہ جب تک مسلمانوں میں یہ جمہوریت ہے‘ خواہ اسلامی جمہوریت کے نام سے ہی سے ہو ‘ مسلمانوں میں وہ اسلام نہیں آ سکتا جس سے کفر کو خطرہ ہو۔ کفر جانتا ہے کہ اگر مسلمان جمہوریت کے چنگل سے نکل گئے تو وہ فورا اصلی اسلام کی طرف دوڑیں گے۔ جس کا سیاسی نظام خلافت الٰہیہ ہے۔ جس میں کفر کے لیے پیغام موت ہے اور مسلمانوں کے لیے دعوت اتحاد و جہاد۔ مسلمانوں کو تو خلافت یاد نہیں رہی لیکن کفر کو وہ کبھی نہیں بھولتی۔ کفر کو جو نقصان پہنچا ہے وہ خلافت سے ہی پہنچا ہے۔ خلافت راشدہ ہو یا خلافت بنو امیہ‘ خلافت عباسیہ ہو یا خلافت عثمانیہ اسلام کی توسیع ان خلافتوں کے دور ہی میں ہوئی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بعض خلافتوں میں بے اعتدالیاں بھی ہوئیں ‘ لیکن اسلام کے عروج کا زمانہ خلافتوں کا ہی زمانہ ہے۔خلافت کے تصور میں مسلمانوں کے شاندار ماضی کی یاد ہے۔ اسی لیے کفر خلافت کے تصور سے بہت خائف ہے۔ کفر خلافت کی تاریخ کو ایسے پیش کرتا ہے کہ مسلمان اس سے متنفر ہوں اور آئندہ کبھی اس کا نام نہ لیں۔ کفر مسلمانوں کو یہ تاثر دیتا ہے کہ اسلام کا اپنا کوئی سیاسی نظام نہیں۔ یہ خلافت کا تصور تو ملوکیت کا تصور ہے۔ جو اسلام کے چہرے پر سیاہ داغ ہے۔ کفر نے خلافت کے خلاف اتنا پروپیگنڈہ کیا کہ عام اردو دان طبقہ تو درکنار مولانا آپ جیسے بھی متاثر ہونے سے نہ رہ سکے۔ حتی کہ آپ نے وہ بدنام کتاب ‘ خلافت و ملوکیت لکھ ماری اور میں سمجھتا ہوں ‘ ملوکیت کو برا سمجھنا اور جمہوریت کو اسلامی کہنا ذہن کے انتہائی مرعوب اور متاثر ہونے کی دلیل ہے۔ ورنہ کہاں جمہوریت اور کہاں ملوکیت؟ ملوکیت کا ذکر تو اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی جگہ بہت اچھے انداز میں کیا ہے۔ مثلا موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو اﷲ تعالیٰ کے انعامات یاد دلاتے ہیں تو فرماتے ہیں

۔ ( وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا )[5:المائدہ:20]

اے بنی اسرائیل اﷲ نے تمھیں بادشاہ بنایا‘ بنی اسرائیل کے ایک نبی اپنی قوم سے فرماتے ہیں

( اِنَّ اﷲَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوْتَ مَلِکًا )[2:البقرہ:247]

کہ اﷲ نے تمھارے لیے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے۔ یوسف علیہ السلام آخر عمر میں اﷲ سے دعا کرتے ہیں اور اس کی نعمتوں کا یوں اعتراف کرتے ہیں

  ( رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْکِ وَ عَلَمَّتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ )[12:یوسف:101]

ﷲ تو نے بادشاہت بھی دی اور علم بھی دیا۔ ۔۔مختصر یہ کہ اسلام ملوکیت کو برا نہیں کہتا کیوں کہ اسلام اور ملوکیت میں جمہوریت کی طرح تضاد نہیں۔ بادشاہ اچھا بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی۔ جو اچھا ہے اسے خلیفہ بھی کہہ سکتے ہیں اور جو برا ہے وہ بر اہے۔ ملوکیت فی نفسہٖ بری نہیں ‘جمہوریت تو نظام ہی کافروں کا ہے۔ ہر لحاظ سے برا ہے۔ اس میں مسلمانوں کے لیے خیر کہاں؟

خلافت کا تصور جس سے کفر خائف ہے ‘ یہ ہے کہ حاکم اعلیٰ اﷲ ہے اور انسان جو حقیقت میں ایک صحیح مسلمان ہی ہو سکتا ہے ‘ روئے زمین پر اس کا خلیفہ ہے۔ سب انسان اپنی خلقت کے اعتبار سے برابر ہیں۔ کیوں کہ سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں۔ فوقیت صرف نیکی اور تقویٰ سے ہے۔ جیسے اﷲ کی حاکمیت وسیع ہے ‘ اسی طرح اس کے خلیفے کی خلافت بھی روئے زمین پر وسیع ہے۔ اسلام کے لیے کوئی ملکی حدود نہیں۔ روئے زمین پر اسلام پھیلانا اﷲ کے خلیفے کا فرض ہے۔ خلافت کے اس تصور سے مسلمانوں میں وحدت اور ایک مرکز کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ جہاد کا جذبہ ابھرتا ہے ۔ جب سب مسلمان برابر ہیں ‘ کوئی اونچ نیچ نہیں تو قومی اور علاقائی عصبیتوں کاخاتمہ ہوتا ہے۔ خلافت کا یہ تصور کفر کے لیے الٹی میٹم ہے اور اسلام کے لیے توسیع کا پروگرام جس کے لیے جہاد کی ضرورت ہے اور جہاد کا حکم یہ ہے کہ جب تک کفر مٹ نہ جائے اسے جاری رکھو۔ ( وَ قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَ یَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ)[2:البقرہ:193] کفر جانتا ہے کہ خلافت الٰہیہ اور جہاد ایسے لفظ ہیں کہ ان سے مسلمانو ں کی وہ دینی حس بیدار ہوتی ہے جو سب عصبیتوں کو ختم کر دیتی ہے اور دنیا کے مسلمان متحد ہو کر جہاد کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس لیے کفر خلافت کے تصور کو براشت نہیں کرتا۔ وہ اسے ہر صورت میں مٹانا چاہتا ہے‘ وہ جمہوریت کا سبق پڑھاتا ہے تاکہ مسلمان اﷲ کو بھول کر اپنی حکمرانی کی دوڑ میں لگ جائے۔ مختلف عصبیتیں پیداکر کے الیکشن لڑیں اور انتشار کا شکار ہوں۔ اسلام کی توسیع اور جہاد کا جذبہ ان کے دلوں سے نکل جائے‘ چھوٹی چھوٹی اپنی جمہوریتیں بنا کر آپس میں دست و گریباں رہیں۔ جب کمزور ہو جائیں تو کفر کے دست نگر رہیں۔کفر نے جمہوریت کی اسی ٹیکنیک سے ترکوں کا ستیاناس کیا ‘ اسی ٹیکنیک سے عربوں کو پارہ پارہ کیا۔ مولانا اسی جمہوریت نے پاکستان کو دو لخت کیا۔ اس حال میں جمہوریت کے نمائندے بھٹو اور مجیب پاکستان کے ٹکڑے کر رہے ہیں اور جماعت اسلامی کھڑی جمہوریت میڈیم کا منہ تک رہی تھی اور جمہوریت میڈیم جماعت اسلامی کا منہ چڑا رہی تھی۔ مولانا مشرقی پاکستان کو الیکشنوں کی بھینٹ چڑھا کر پھر الیکشنوں کا مطالبہ کرنا بے رحمی کی انتہا ہے۔ حال آنکہ بزنجو اور جی ایم سید جیسے صاف کہہ رہے ہیں کہ اگر اب الیکشن ہوئے تو ہم مجیب بنیں گے۔مولانا آپ کی جماعت جو الیکشن کا مطالبہ کرتی ہے‘ تو کیا اس کا یہ خیال ہے کہ اس طرح ملک میں اسلام آ جائے گا؟ اگر یہ خیال ہے تو ع

ایں خیال است و محال است و جنوں

مولانا کیا تیس سال میں آپ کی جماعت کو اس کا تجربہ نہیں ہوا اور اگر یہ امید ہے کہ الیکشنوں سے پاکستان محفوظ ہو جائے گا تو یہ بھی الٹی امید ہے۔ کیوں کہ ان الیکشنوں نے ہی تو پاکستان کو دو ٹکڑے کیا ہے اور مزید کے منصوبے ہیں۔ اور اگر مغرب کے دباؤ سے یہ الیکشن کروائے جا رہے ہیں تو یہ الیکشن پاکستان کو ختم کرنے کے لیے ہیں۔ مغرب کوئی ہمارا دوست ہے جو ہمارے لیے اچھا سوچے گا؟ پاکستان جیسے ملک میں الیکشنوں کے ذریعے اسلام لانے کی توقع رکھنا کسی ناعاقبت اندیش کا فکر تو ہو سکتا ہے کسی مدبر کی رائے نہیں ہو سکتی۔ بنیاسرائیل جیسی بگڑی ہوئی قوم میں دنوں میں کبھی اسلام نہیں لایا جا سکتا۔ کیوں کہ ان میں نہ انتخاب کرنے کی صلاحیت نہ منتخب ہونے کی اہلیت۔ ان میں تو اسلام کو نافذ ہی کرنا ہوگا‘ وہ چاہتے ہوں یا نہ۔ ایسے لوگوں سے پوچھ کر اسلام نافذ کرنا ایسی ہی غیر حکیمانہ بات ہے جیسے نالائق بچوں سے پوچھ کر ان کو پڑھانا کہ پڑھو گے یا چھٹی کرو گے۔ جو بچوں کی مرضی پر چلے گاوہ کیا خاک پڑھائے گا۔

پاکستانی قوم میں جو عرصہ تک اغیار کے نیچے رہی الیکشن کے کیا معنی۔ جس کو ان عیار اغیار نے اپنے اثر ونفوذ سے پوری طرح بھر دیا۔ جس کو ان عیاروں نے چھوڑا ہی اس وقت جب کہ قوم بالکل ناکارہ ہو گئی۔ساری صلاحیتیں ختم ہو گئیں ۔ قوت مدافعت جواب دے گئی۔ پوری قوم ان کی تخم ریزی سے ایسی حاملہ ہوئی کہ آج بھی قوم انگریز بچے جن رہی ہے۔ انگریز ظالم تو غیروں پر حکومت کرتا تھا اس لیے وہ ایسے ایسے داؤ چلاتا تھا ‘ لیکن اس کی پاکستانی ذریت اپنوں پر ہی وہ داؤ چلاتی ہے ۔ انگریز چلا گیا لیکن اس کی سیاست اس کی اولاد کے ذریعے آج بھی پاکستان میں کارفرما ہے اور اسلام کے لیے رکاوٹ ہے۔ اپنے باپ کے اثر کے تحت یہ غیروں کے وفادار ‘ اپنوں کے غدار جیسے انگریز اسلام اور پاکستان کا دشمن ایسے ہی یہ بھی اسلام اور پاکستان کے دشمن ۔ان کے نام اسلامی اور ان کے کام غیر اسلامی ۔ ان کے جسم انسانی ان کی روحیں حیوانی۔ ان کے ذہن شیطانی ان کے دل مجسم بے ایمانی۔ بظاہر مسلمان ‘ لیکن نظام اسلام سے ایسے الرجک کہ نام سنتے ہی چونک پڑتے ہیں ۔ مولانا جس قوم کا یہ حال ہو ان میں الیکشن کروا کر اسلام لانے کے خواب دیکھنا کوئی عقل مندی نہیں۔ الیکشن تو ان قوموں میں ہو سکتا ہے جن کا فکر اپنا ہو‘ رائے اپنی ہو‘ زبان اپنی ہو‘ ان میں الیکشن کیسا جن کے نہ دل اپنے‘ نہ زبان اپنی۔ جو بجائیں بجیں‘ بلائے بولیں۔مولانا اول تو الیکشن مسلمانوں کے مزاج ہی کے خلاف ہیں‘ تاریخ اسلام اس پر شاہد ہے ۔ دوسرے پاکستانی ذہنی غلامی کی وجہ سے الیکشن کے لائق نہیں۔ تیسرے اب الیکشن کی ضرورت ہی نہیں کیوں کہ اب پاکستان بن چکا ہے۔ الیکشن کی ضرورت اس وقت تھی جب پاکستان بناناتھا۔ مسلمانوں کو اسلام کے لیے علیحدہ گھر کی ضرورت تھی۔ حکومت انگریز کی تھی ۔ مقابلہ کفار سے تھا‘ الیکشن کے سوا چارہ نہ تھا۔ تعجب ہے جب الیکشن کی ضرورت تھی‘ پاکستان بناناتھا تو مولانا آ پ نے الیکشن میں حصہ نہ لیا‘ اس وقت آپ نے مسلم لیگ کا ساتھ اس لیے نہ دیا کہ وہ بے دین جماعت ہے ‘ پاکستان جیسی اسلامی ریاست قائم کرنے کے اہل نہیں۔ حال آنکہ اس وقت اسلام لانے کا مسئلہ نہ تھا‘ بلکہ اسلام کے لیے گھر بنانے کامسئلہ تھا۔ اس وقت لیگیوں سے اتفاق کرنا اور ان کے ساتھ الیکشن میں حصہ لینا اسلام اور مسلمان دونوں کے مفاد میں تھا اور اب جب کہ اسلام نافذ کرنے کا مسئلہ ہے جس کے لیے اول تو الیکشن کی ضرورت نہیں دوسرا لیگی وغیرہ سیاسی جماعتیں جو خود اسلام سے دور ہیں ‘ اسلام لانے کے اہل نہیں۔ ان کے ساتھ مل کر آپ الیکشن کا مطالبہ کرتے ہیں ‘ حال آنکہ اب الیکشن کروانا نفاذ اسلام کو ٹالنا اور ملک کو تباہ کرنا ہے۔

مولانا دعویٰ آپ اقامت دین کا کرتے ہیں اور چاہتے الیکشن ہیں۔ بھلا الیکشنوں سے بھی کبھی اقامت دین ہوئی ہے ؟ الیکشن سے جمہوریت پروری تو ہو سکتی ہے اقامت دین نہیں ہو سکتی‘ بلکہ الیکشنوں سے تو اماتت دین ہوتی ہے‘ کیوں کہ الیکشنوں میں صریحاً اسلام کی مخالفت ہے۔

1– جب الیکشن جمہوری نظام کا ایک عمل ہے تو الیکشن کروانے میں جمہوری نظام کی ترویج ہے۔ چونکہ جمہوری نظام کفر کا نظام ہے لہٰذا الیکشن کروانا گویا کفر کے نظام کو رواج دینا ہے۔

2– الیکشن ایک جمہوری عمل ہے‘ اور جمہوریت کفر کا نظام ہے اس نظام کی بنیاد اس عقیدے پر ہے کہ اﷲ اور اس کی حاکمیت کوئی چیز نہیں۔ خلافت الٰہیہ کا تصور ملوکیت کا استبدالی تصور ہے۔حکومت عوام کا حق ہے۔ عوام ہی سب کچھ ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ الیکشن کے ذریعے اپنے اس حکومت کے حق کو استعمال کریں۔ لہٰذا الیکشن کروانا گویا جمہوریت کے اس کفریہ عقیدے کو تسلیم کرنا ہے۔

3–الیکشنوں کی بنیاد یہ عقیدہ کہ حکومت عوام کا حق ہے‘ اﷲ کا حق نہیں‘ الیکشن کروانا گویا عوام کے اس حق کو تسلیم کرنا ہے‘ جس سے اﷲ کی حاکمیت کی نفی ہوتی ہے۔

4–اسلام کہتا ہے حکومت اﷲ کا حق ہے‘ کیوں کہ ہر چیز کا خالق و مالک وہی ہے۔ زمین پر بھی حکومت اﷲ ہی کی ہے ۔ زمین پر اﷲ کا نائب خلیفہ ہوتا ہے‘ اس نائب کا کام اﷲ کے احکام کو نافذ کرنا ہوتا ہے۔ اس نائب کے لیے عوام کا نمائندہ ہونا ضروری نہیں‘ وہ چند ایک کامقرر کردہ بھی ہو سکتا ہے ‘ وہ غیر ملکی بھی ہو سکتا ہے ‘وہ خود قابض بھی ہوسکتا ہے جو اﷲ کے دین کو نافذ کرے وہ نائب ہے۔ عوام اسے منتخب کر سکتے ہیں نہ معزول۔ اِلاَّ یہ کہ اﷲ کا باغی ہو جائے عوام اپنے کسی حق کی وجہ سے اسے نہیں ہٹا سکتے۔ چنانچہ مسلم شریف میں حضرت وائل بن حجرؓ سے روایت ہے‘ انھوں نے کہا:((یٰا نَبِیَّ ﷲِ اَرَاَیْتَ اِنْ قَامَتْ عَلَیْنَا اُمْرَاءُ یَسْئلُوْنَّ حَقَّھُمْ وَ یَمْنَعُوْنَّ حَقَّنَا فَمَا تَاْمُرُنَا قَالَ اسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا فَاِنَّمَا عَلَیْھِمْ مَاحُمِّلُوْا وَ عَلَیْکُمْ مَا حُمِّلْتُمْ )) یعنی یارسول اﷲ ﷺ اگر ہمارے امراء اپنے حقوق تو پورے وصول کریں لیکن ہمارے حقوق تلف کریں تو پھر کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تم اطاعت کرتے رہنا‘ نافرمانی نہ کرنا۔ وہ حاکم اعلیٰ یعنی اﷲ کو اپنا حساب دیں گے۔تم اپنا حساب دو گے۔ حضرت اوف ابن مالکؓ اور حضرت ام سلمہؓ کی روایت میں ہے کہ صحابہؓ نے کہا: ((اَفَلاَ نُنَابِذُھُمْ اَفَلاَ نُقَاتِلُھُمْ یَارَسُوْ لَ ﷲِ )) ۲ یعنی اے اﷲ کے رسول ﷺ اگر ہمارے امراء ظالم ہو جائیں اور ہم ان سے تنگ آ جائیں تو کیا ہم ان کو اتار نہ پھینکیں آپؐ نے فرمایا ‘ نہ جب تک وہ کفر بواح کرکے اﷲ کے باغی نہ ہوں۔ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنا ۔ اسلام کا تو یہ حکم ہے کہ عوام کے کسی حق پر خلیفہ کو ہٹایا نہیں جا سکتا‘ کیوں کہ وہ اﷲ کا نائب ہے۔ لیکن جمہوریت کہتی ہے کہ ہر پانچ سال بعد ضرور الیکشن ہوں ‘ تاکہ خلیفہ کو بدلا جا سکے‘ اس کا کوئی قصور ہو یا نہ ہو ۔ لہٰذا ہر پانچ سال بعد الیکشن کروانے میں اسلام کے اس حکم کی صریح مخالفت ہے۔ اﷲ کی حاکمیت کا ابطال ہے۔ نظریہ خلافت الٰہیہ کا استیصال ہے۔ مولانا آپ احادیث کو دیکھیں پھر اندازہ کریں کہ اس الیکشن بازی میں اسلام کی کتنی مخالفت ہے۔

مولانا کوئی مانے یا نہ اسلام میں الیکشن بازی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام میں الیکشن نہ پہلی بار جائز ہیں نہ پانچ سال بعد۔جب اسلام عوام کے اور حکومت کے حق کو تسلیم ہی نہیں کرتا تو الیکشنوں کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟عوام کو الیکشنوں کی اجازت دینے کے معانی یہ ہیں کہ حکومت عوام کا حق ہے۔عوا م کو حکومت کا حق دینے کے معانی یہ ہیں کہ اﷲ علی الاطلاق حاکم نہیں۔ زمین پر حکومت عوام کی ہے۔ جب زمین پر اﷲ کی حاکمیت نہ رہی تو اﷲ کے احکام ماننے کا سوال کہاں رہا۔ تو پھر اسلام کہاں رہا اور یہی کفر چاہتا ہے کہ جمہوریت کے ذریعے مسلمانوں کو ملحد اور لادین بنائے۔ مولانا یہ حقیقت ہے کہ اسلام میں نہ جمہوریت نہ الیکشن ۔ اسلام عوام کو الیکشنوں کا حق بالکل نہیں دیتا۔

سوال: اسلامی معاشرے میں عوام کا کوئی حق ہے بھی یا اسلام عوام کو کوئی جانور ہی سمجھتا ہے اور انھیں کوئی حق نہیں دیتا۔؟

جواب: عوام کا کوئی حق نہیں‘ بلکہ عوام کے تو بہت حقوق ہیں۔ اسلام عوام کو جانوروں کی طرح سلوک ( Treat)نہیں کرتا‘ بلکہ گھر کے بچوں کی طرح سلوک کرتا ہے۔ صرف نظام حکومت میں دخل دینے کی اجازت نہیں دیتا کیوں کہ وہ اس کے اہل نہیں ہوتے۔

سوال: اسلام میں عوام کے کیا حقوق ہیں ؟

جواب: وہی جو ایک گھر میں چھوٹوں کے بڑوں پر ہوتے ہیں۔ مثلاً ان کی تمام ضرورتیں پوری ہوں‘ ان کی مصلحتوں کا پورا پورا خیال رکھا جائے۔ ‘ ان کے ساتھ شفقت و مساوات کا سلوک ہو‘ ان کی صحیح تربیت ہو تاکہ وہ مستقبل کے قائد اور مشیر بن سکیں۔ غرض یہ کہ ان کی ہر طرح سے کفالت ہو۔

سوال: اگر عوام کے حقوق پورے نہ ہوں تو پھر؟

جواب: تو پھر کیا وہ بغاوت کر دیں‘ اگر والد اولاد کے حقوق پورے کرنے میں کوتاہی کرے تو اولاد کیا کرے گی‘ کیا وہ باپ کے خلاف جلوس نکالے گی اور مظاہرے کرے گی یا الیکشن کرکے باپ کو اس کے مقام سے ہٹا دے گی۔

سوال: ہٹائے گی تو نہیں لیکن اپنے حقوق کا مطالبہ تو کرے گی۔

جواب: لیکن ابا جی کہہ کر ہی کرے گی ۔ جمہوری نظام کے طریقے اختیار تو نہیں کرے گی۔ باحسن طریق مطالبے کا حق تو اسلام بھی دیتا ہے۔ لیکن اسلام جمہوری تخریب کاریوں کی اجازت نہیں دیتا‘ کیوں کہ اس سے نظام حکومت مزید خراب ہوتا ہے اور بدامنی پھیلتی ہے۔

مولانا اسلام کا نظام سیاست اسلام کی طرح کا قدرتی نظام ہے۔ جب اسلام دین فطرت ہے اور ہر لحاظ سے جامع ہے تو اس کے شعبہ جات عین فطرت کے مطابق کیوں نہ ہوں گے؟ یہ جمہوریت یا کفر کے اور نظاموں کی طرح غیر فطری اور Unscientific (غیر معقول) نہیں۔ اسلامی تعلیم یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ ایک گھرانے کے افراد کی طرح ہے ۔ والد راعی ہے اولاد رعایا ہے۔ گھرانے کے بڑے افراد مجلس مشاورت ہیں اور پھر ہر ایک کے حقوق ہیں۔ ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ گھر ایک چھوٹا سا یونٹ ہے ‘اس کے نظام سے ملکی نظام اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی معاشرے کے افراد کو اسلام پہلے ایک دوسرے کے بھائی بناتا ہے۔( اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ)[49:الحجرات:10]نیز(یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوْا ﷲَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ )[4:النساء:59]کہہ کر ان پر ایک صاحب امر خلیفہ مقرر کرتا ہے۔‘ اختلاف کی صورت میں مظاہروں ‘ ہڑتالوں یا الیکشن کے ذریعے ادل بدل یا گڑبڑ کی اجازت نہیں دیتا‘ بلکہ( فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی ﷲِ وَ الرَسُوْل )[4:النساء:59]کہہ کر اﷲ کی حاکمیت اعلیٰ کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ کہ تم میں کوئی حاکم نہیں‘ کوئی محکوم نہیں‘ سب کا حاکم اﷲ ہے۔ تم سب کیا راعی کیا رعایا اس کے ماتحت ہو۔ وہ تم سب کا حساب لے گا۔ اس لیے سب قانون خداوندی کی پابندی کرو۔ پھر( ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلاً)[4:النساء:59]کہہ کرنتائج و عواقب کے لحاظ سے اسلامی نظام کے بہترین ہونے کی گارنٹی دیتا ہے۔ اسلام کا سیاسی نظام گھر کے قدرتی نظام کی طرح ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ اسلامی معاشرے کے افراد میں وہی اخوت ومودت ہو جو بھائیوں میں ہوتی ہے۔ وہی شفقت و احترام ہو جو بڑوں چھوٹوں میں ہوتا ہے۔ وہی نظام حکومت ہو جو ایک گھرانے کا ہوتا ہے ‘بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اسلام تو اسلامی معاشرے کے افراد کو ایک جسم کے اعضا بتاتا ہے جن میں ربط و ضبط بھی کمال کا کہ ایک عضو کی تکلیف سب اعضا کی تکلیف۔ اطاعت و فرمان برداری بھی غضب کی۔ سب ایک کنٹرولر کے ماتحت ۔ وہ کنٹرولر تاحیات کنٹرولر رہتا ہے۔ نہ کبھی کوئی الیکشن ‘اور نہ کوئی جمہوری عمل اور یہی قدرتی نظام ہے۔ اگر معاشرے کا ہر فرد اپنی ذمہ داریاں پوری کرتارہے تو کام خوش اسلوبی سے چلتا رہتا ہے۔ اگر کسی طرف سے بے اعتدالی ہونے لگ جائے تو بگاڑ شروع ہو جاتا ہے۔بگاڑ کی صورت میں اسلام ( فَاتَّقُوﷲَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْ )[8:الانفال:1]کے تحت اصلاح کا حکم دیتا ہے اور اصلاح بھی ایسے جیسے دو بھائیوں میں کروائی جاتی ہے(اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ )[49:الحجرات:10]

جس میں صبر‘ عفو اور درگزر سے کام لینے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اور یہی اس بگاڑ کا علاج ہے۔ الیکشن کوئی علاج نہیں۔ اسلام اپنے مریضوں کے علاج کا حکم دیتا ہے۔ مریض کو مار دینے یا بدل دینے کی اجازت نہیں دیتا۔الیکشنوں سے مرض کا علاج نہی ہوتا بلکہ مریض کا خاتمہ ہوتا ہے۔ ملک کے جتنے ادارے ہیں سب اس یونین سازی اور الیکشن بازی کی نظر ہو گئے ہیں۔کالج اور یونیورسٹیوں میں نہ تعلیم رہی ‘ نہ ڈسپلن۔۔۔ صنعتی اور محنتی اداروں میں‘ نہ پیداوار رہی نہ اعتماد۔ اخلاقی لحاظ سے ملک ویسے ہی دیوالیہ ہو گیا ہے‘ کیوں کہ اخلاق کا تعلق مذہب سے ہے اور جمہوریت جانتی نہیں کہ مذہب چیز کیا ہے ؟ اس لیے جوں جوں جمہوریت آتی جاتی ہے مذہب روانہ ہوتا جاتا ہے اور مذہب کے ساتھ اخلاقی اقدار بھی ختم ہوتی جاتی ہیں اور معاشرے کا اخلاق اقدار سے عاری ہونا معاشرے کی موت ہے۔

جمہوری عمل کے تحت ہر پانچ سال بعد الیکشن کروانے سے ملکی حالات کی اصلاح نہیں ہوتی بلکہ سیاست کے میدان میں الیکشن کا کھیل کھیلنے والوں میں سے کسی کو بھی ملک سے ہمدردی نہیں رہتی۔ ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ میرا ٹھیکہصرف پانچ سال کا ہے ‘ پتا نہیں پھر ٹھیکہ کس کو ملے ‘ اس لیے جتنا ہاتھ مارا جا سکتا ہے مار لوں اور وہ اپنے آنے والے سیاسی حریفوں کے لیے زیادہ سے زیادہ مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کا نتیجہ معاشرے کی تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔ جب ہر ایک کو معلوم ہوتا ہے کہ ہر پانچ سال کے بعد نیا ٹھیکہ ہوگا تو ہر قسمت آزما نئے ٹھیکے کے لیے اپنی تیاری کرتا ہے۔ کسی عصبیت پر یا کسی اور فتنے کے نام پر اپنی پارٹی بناتا ہے۔ اس طرح حشرات الارض کی طرح ملک میں سیاسی پارٹیاں بنتی ہیں جو ملک کی تباہی کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔ نئے نئے مسئلے اور مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں۔ ملک کو استحکام نصیب ہونا تو درکنا ملک انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس لیے الیکشن معاشرے کی بیماریوں کا علاج نہیں‘ بلکہ معاشرے کی موت کا سبب ہے۔ جب الیکشن سے حرص و ہوس بڑھتی ہے تواس سے معاشرے کا علاج ہو بھی کیسے سکتا ہے۔ علاج تو اس کو کم کرنے اور صبر کی عادت ڈالنے سے ہی ہو سکتا ہے۔ اس لیے ایسے حالات میں اسلام الیکشن کی بجائے اچھی تدبیروں اور اخلاص بھری دعاؤں سے علاج کرنے کا حکم دیتا ہے۔ چنانچہ حضرت عبداﷲ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ((اِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِ یْ اِثْرَۃً وَاُمُوْرًا تُنْکِرُوْنَھَا قَالُوْا فَمَا تَاْمُرُنَا یَا رَسُوْلُ ﷲِ قَالَ اَدُّوْا اِلَیْھِمْ حَقَّھُمْ وَ اسْئلُوا ﷲَ حَقَّکُمْ ))۔ ۳تم دیکھو گے کہ ایسے حاکم بھی آئیں گے جو تمھارے ساتھ ظلم و زیادتیاں کریں گے ‘ صحابہؓ نے کہا کہ ایسی صورت میں ہمارے لیے کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ حاکموں کے حق ادا کرتے رہنا اور اپنے حقوق کے لیے اﷲ سے دعا کرنا۔ ایک اور حدیث میں جو عبداﷲ بن عمرؓ سے مروی ہے آپؐ نے فرمایا: ((فَاِذَا عَدَلَ کَانَ لَہ‘ الْاَجْرُ وَ عَلَی الرَّعِیَّۃِ الشُّکْرُ وَ اِذَا جَارَ کَانَ عَلَیْہِ الْاِصْرُ وَ عَلَی الرَّعِیَّۃِ الصَّبْرُ ))۴جب حاکم عدل کرے تواس کے لیے اجر ہے اور رعایا کے ذمے شکر ہے۔ اگر حاکم ظلم کرے تو حاکم پر بوجھ ہے اور رعایا پر صبر واجب ہے۔

ان جیسی بہت سی احادیث سے اور تجربے سے واضح ہے کہ بار بار الیکشن کروانا معاشرے کے بگاڑ کا علاج نہیں بلکہ خود بگاڑ ہے۔ اسلام عوا م کو ہمارے حقوق ‘ ہمارے حقوق کے نعرے لگا کر بغاوت کرنے یا الیکشن کروانے کی اجازت نہیں دیتا۔ مولانا جب الیکشن اسلام میں جائز نہیں تو جو لوگ ہر پانچ سال بعد جماعتی یا ملکی الیکشن کرواتے ہیں کیا وہ اسلام کی مخالفت نہیں کرتے۔؟ جب یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اسلام اور جمہوریت جمع نہیں ہو سکتے‘ کیوں کہ ان میں ایسا تضاد ہے کہ ایک سے دوسرے کی نفی ہوتی ہے ۔ اسلام کہتا ہے کہ حکومت اﷲ کا حق ہے ‘ کیوں کہ وہ رب العالمین ہے۔ جمہوریت نہ اﷲ کو مانتی ہے ‘ نہ اس کی حاکمیت کو وہ کہتی ہے ۔ حکومت عوام کا حق ہے اور یہی الیکشنوں کی بنیاد ہے۔تو مولانا جو لوگ الیکشنوں کے عادی ہیں کیا وہ شعوری اور غیر شعوری طور پر اپنے اس عمل سے جمہوریت کی تصدیق اوراسلام کی تردید نہیں کرتے۔؟ کیوں کہ ہر پانچ سال بعد الیکشن کروانے کی بنیاد ہی یہ ہے کہ حکومت اﷲ کا حق نہیں عوام کا حق ہے‘ جس کو وہ الیکشنوں کے ذریعے استعمال کرتے ہیں اور جب اﷲ کی حاکمیت کا انکار ہو جائے تواسلام کی تردید خود بخود ہو جاتی ہے‘ کیوں کہ اسلام اﷲ کا حکم ماننے کو کہتے ہیں۔جب عقیدہ ہو کہ اﷲ حاکم ہی نہیں‘ حکوت اﷲ کا حق نہیں بلکہ عوام کا حق ہے تو اسلام کہاں رہتا ہے۔ مولانا آپ ہی بتائیں کہ جب ایک دفعہ الیکشن ہوگئے‘ منتخب ہونے والے منتخب ہو گئے۔ حکومت کا کام ٹھیک چل رہا ہے تو پھر ہر پانچ سال بعد الیکشن ضرور کرواؤ یا کفر چاہتا ہے کہ عوام اپنے استقرار حق کے لیے الیکشن ضرور کرواتے رہیں تاکہ عوام کا حکومت کا حق پکا ہو ۔ اﷲ کی حاکمیت کا تصور ختم ہو۔ مولانا جمہوریت کا اثر مسلمانوں پر ایسا ہے کہ آج کل عام مسلمان الیکشن کرواتے ہیں‘ لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ یہ جمہوری الیکشن چیز کیا ہے ؟ ان میں اسلام کی کتنی مخالفت ہے ‘ کیسے ان سے اسلام کی نفی ہوتی ہے اور کیسے کفر کا اثبات ہوتا ہے اور اس کا اثر ہے کہ آج مسلمان ہر شعبہ زندگی میں اسلام سے کوسوں دور چلے گئے ہیں۔

مولانا خلیفہ کو نہ ہٹانا اسلام کا اجماعی مسئلہ ہے لیکن جمہوریت اسے نہیں مانتی۔ وہ کہتی ہے کہ الیکشن ضرور ہوں۔ اس مسئلہ میں کسی کا اختلاف نہیں۔ چاروں خلفا ء تا حیات خلیفہ رہے۔ کوئی الیکشن نہیں ہوا بلکہ رسول اﷲ ﷺ نے صراحتاً حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ سے کہا تھا ((لَعَلَّ ﷲُ یُقَمِّصُکَ قَمِیْصًا فَاِنْ اَرَادُوْکَ عَلٰی خُلْعِہٖ فَلاَ تَخْلَعْہُ لَھُمْ )) ۔ ۵ اے عثمان شاید اﷲ تجھے خلافت کی خلعت پہنائے ‘ لوگوں کے کہنے پراسے اتارنا نہیں۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ (( بَایَعْنَا رَسُوْلَ ﷲِ  عَلٰی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہَ وَ عَلٰی وَالْاَثَرَۃِ عَلَیْنَا وَعَلٰی اَنْ لاَّ نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہ‘ اِلاَّ اَنْ تَرَوْا کُفْرًا بَوَّاحًا عِنْدَکُمْ مِنَ ﷲِ فِیْہِ بُرْھَانٌ))۶ یعنی صحابہ کرام جب حضور ﷺ سے بیعت کرتے تو یہ اقرار بھی کرتے کہ ہم ہر حالت میں امیر کی اطاعت کریں گے۔ سوائے واضح کفر کے اسے نہیں ہٹائیں گے‘ خواہ ہم اس سے تنگ ہی ہوں۔ یہ اسلام کا ایسا تاکیدی حکم ہے کہ بہت سے صحابہ سے اس سلسلے میں احادیث مروی ہیں۔ ان میں سے چند ایک جلیل القدر صحابہ کے نام یہ ہیں: عبداﷲ بن عمرؓ ‘ عبداﷲ بن عباسؓ ‘ عبداﷲ بن مسعودؓ ‘ ابوہریرہؓ عوف بن مالکؓ ‘ ام سلمہؓ عبادہ بن صامتؓ ‘ وائل بن حجرؓ اور ابوالدرداءؓ ۔

مولانا اب اگر احادیث کومانا جائے اور اسلام کے بنیادی عقیدے اﷲ کی حاکمتی کو دیکھا جائے تو الیکشن ناجائز ہی نہیں بلکہ حرام ٹھہرتے ہیں اور جمہوریت ختم ہوتی ہے اور اگر الیکشن کروائے جائیں تو بے شمار احادیث کی مخالفت لازم آتی ہے۔ اﷲ کی حاکمیت کی نفی ہوتی ہے اور اسلام ختم ہو تا ہے۔ اسی لیے ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے یا اسلام چھوڑنا پڑے گا یا جمہوریت۔

مولانا اسلامی جمہوریت والے ملک کو اسلامی جمہوریہ کا نام دے کر بہت فخر کرتے ہیں ‘ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہت بڑا تیر مارا ہے۔ وہ نہیں سمجھتے کہ اسلامی جمہوریہ میں حکومت اسلام کی نہیں ہوتی‘ حکومت جمہور کی ہوتی ہے۔ اس لیے اسلام جمہور کے رحم و کرم پر ہی ہوتا ہے اس کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ بادشاہ کی بادشاہت چھین کر کسی غلام کو دے دینے‘ اور پھر بادشاہ کی دلجوئی کے لیے بادشاہ کو غلام کے برابر بٹھادینے میں بادشاہ کی کوئی عزت ہے ؟ اسلامی جمہوریہ میں حکومت جمہور کی ہوتی ہے اور اسلام جمہور کے تابع ہوتا ہے۔ جہاں حکومت اسلام کی ہوتی ہے اور جمہور تابع ہوتے ہیں اس کو جمہوریہ نہیں کہتے۔ چنانچہ خیرالقرون میں جب حکومت اسلام کی تھی ‘ جمہور اسلام کے تابع تھے‘ کسی ملک کو اسلامی جمہوریہ نہیں کہتے تھے۔ مولانا آپ ہی بتائیں خیر القرون میں خاص کر خلافت راشدہ کے دور میں جب کہ اسلام کا زور تھا کسی ملک کا نام اسلامی جمہوریہ تھا؟ اسلامی جمہوریہ کا تو نام چلا ہی اس وقت سے ہے جب سے مسلمان مرعوب ہو گئے ہیں۔ اسلام مغلوب ہو گیا۔ جمہوریت جو کفر کا نظام تھا غالب آ گیا۔ اسلامی جمہوریہ میں اسلام جمہور کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ اگر جمہور اسلام پر مہربانی کریں تو اس کو اپنے ہاں ٹھہرائے رکھیں ورنہ جب چاہیں اکثریت کے ووٹ سے نکال باہر کریں۔ بھٹو اسلامی دستور کو بھی مانتا تھا۔ پاکستان کو بھی اسلامی جہوریہ کا نام دیتا تھا ‘لیکن جب دل چاہتا تھا مفتی محمود جیسے جمہوریت پرست کو اسمبلی سے باہر پھینک کر اکثریت سے دستور میں ترمیم کرلیتا تھا۔ اسلامی جمہوریہ میں نام ضرور اسلام کا ہوتا ہے لیکن یہ امکان ہر وقت رہتا ہے کہ جمہور جب چاہیں اکثریت کے ووٹ سے اسلام کے لفظ کو اڑا کرفقط جمہوریہ بنا دیں۔ جب اسلامی جمہوریہ میں حکومت جمہور کی ہوتی ہے‘ اسلام کی نہیں ہوتی تو لفظ اسلام کا کیا اعزاز اور کیا اعتبار۔!

مولانا یہ جمہوریت پسندی حقیقت میں عافیت پسندی ہے کہ کفر اسلام کو کچھ نہ کہے۔ اسلام کفر کو کچھ نہ کہے۔ دونوں جمہوریت کے سائے میں عافیت سے رہیں۔ مولانا یہ جمہوریت پسندی اصل میں کفر سے سمجھوتہ ہے اور جہاد نہ کرنے کا اقرار ہے اور جب مسلمان جہاد سے عاری ہو جاتا ہے تواس کے پلے کچھ نہیں رہتا۔ مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا:(( مَنْ مَّاتَ وَلَمْ یَغْرُ وَلَمْ یُحَدِّثْ بِہٖ نَفْسَہ‘ مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِنْ نِفَاقٍ )) ۷ جو مر جائے اور اس نے جہاد نہ کیاا ور نہ جہاد ی کبھی سوچ رکھی ‘ وہ منافق ہو کر مرتا ہے۔ مولانا اس جمہوریت نے مسلمانوں کا جہاد کا جذبہ ختم کر دیا ہے۔ مسلمانوں کو تبلیغ سے روک دیا ہے کہ تبلیغ سے دوسروں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ مسلمان پست ہمت ہو گئے ہیں۔ جرآت جاتی رہی ہے۔ مسلمانوں پر جب جمہوری دور آیا ‘ مسلمانوں نے کھویا ہے کمایا کچھ نہیں۔

مولاناآپ کی سیاست بھی جماعتی ہو یا ملکی جمہوریت ہی ہے اور یہ جمہوریت پرستی آپ کی ناکامی کا سبب بھی ہے اور آپ کی دینی اور سیاسی بصیرت پر بدنما دھبہ بھی بلکہ بعض تو یہ کہتے ہیں کہ مولانا مودودی کیسا مفکر اسلام ہے جو جمہوری نظام کا آرزو مند ہے۔ مولانا جماعت اسلامی کی سیاست بھی جمہوریت ہی ہے اور جماعت اسلامی آپ کی جماعت ہے اور آپ نے اس کی بنیاد رکھی ہے‘ آپ ہی اس کے روح رواں ہیں۔اگرچہ آپ اب جماعتی سیاست سے ریٹائرڈ ہو گئے ہیں اور میاں طفیل امیر بن گئے ہیں۔ لیکن حقیقت میں اب بھی جماعت اسلامی آپ ہی ہیں۔ اب بھی یہ جماعت آپ کی رہنمائی میں کام کرتی ہے۔ آپ کی وفات کے بعد بھی یہ جماعت آپ کی لائنوں پر ہی کام کرے گی۔ اس لیے مولانا یہ آپ کے انجام کے لیے بھی بہتر ہے اور جماعت کے مفاد میں بھی کہ آپ خود بھی جمہوریت سے توبہ کر لیں اور اپنی جماعت کو بھی اپنے ہاتھوں سے اسلامی بنا جائیں۔ یہ آپ کے لیے بھی کفارہ بن جائے گی اور جماعت بھی حقیقی معنوں میں ا سم با مسمّیٰ ہو جائے گی۔

مولانا ابھی تک آپ کی جماعت کا یہ حال ہے کہ جماعت کے سربرآوردہ لوگوں کے اعتقاداسلامی نہیں۔ چنانچہ پرفیسر غفور صاحب حال ہی میں بہاول پور تشریف لائے تو تقریر کرتے ہوئے کہنے لگے کائنات کی تخلیق حضور ﷺ کی خاطر ہوئی ہے۔ یعنی وہی ’’لولاک‘‘ والا بے بنیاد عقیدہ اور قریباً ایسا ہی حال میاں طفیل صاحب کا ہے۔ جس جماعت کے قائدین کا یہ حال ہو اس جماعت کے عوام کا کیا حال ہوگا؟ مولانا جس جماعت کی سیاست جمہوریت ہو‘ اکابر کے عقائد ایسے بے بنیاد ہوں کہ مزاروں پر چادریں چڑھانا روا رکھیں ‘ مذہب تقلیدی ہو‘ وہ کیا اسلامی ہوگی اور کیااسلام لائے گی۔ مولانا اسلامی انقلاب لانے والوں کے لیے ضروری ہے کہ پہلے وہ خود صحیح معنوں میں اسلامی ہوں ۔ اگر وہ اسلامی نہ ہوں تو انقلاب اسلامی کیسے لائیں گے اور یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی آج تک اسلامی انقلاب کے خواب دیکھتی رہی اسلامی انقلاب نہ لا سکی۔

مولانا اب کوچ کا وقت قریب ہے‘ کوئی ایسا کارنامہ کر جائیں جس سے جماعت صحیح اسلامی حقیقی معنوں میں اسلامی بن جائے اور آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہو جائے۔ جس سے ان کا ذہن بھی اسلامی ہو ‘ ان کا عمل بھی اسلامی ‘ ان کی سیاست بھی اسلامی ہو‘ ان کی معاشرت بھی اسلامی۔ جمہوریت نہ ان کی جماعتی سیاست رہے ‘ نہ ملکی۔ مولانا آپ کی جماعت نام کی اسلامی ضرور ہے ‘ لیکن کام کی اسلامی نہیں۔ الیکشن تو چاہتی ہے لیکن اگر کہا جائے کہ ہم اسلام والوں کو مجاہدین بن کر کفر کے ساتھ ایسے ایسے کرنا چاہیے تو کہتے ہیں کہ اگر ہم ایسا کریں گے تو پھر کفر بھی ہمارے ساتھ ایسا ہی کرے گا۔ مولانا آپ کی جماعت پر یہ سارا اثر جمہوریت کا ہے کہ جو کچھ کرو آئینی حدود کے اندر رہ کر کرو‘ خواہ آئین ایوب اور بھٹو کا ہو ۔ مولانا جو کفر کے آئین کی پابندی کرے گا وہ کیا انقلاب لائے گا۔

مولانا سچی بات یہ ہے کہ یہ جمہوریت بہت بڑی بدعت ہے جس نے مسلمانوں کو دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے تباہ کر دیا ہے۔ عام بدعتوں کا احساس تو لوگوں کو ہو جاتا ہے لیکن جمہوریت جیسی بدعت کا احساس نہیں ہوتا‘ کیوں کہ لوگ عام طور پر سیاست کو دین نہیں سمجھتے۔ اس لیے سیاسی بدعت کو بھی بدعت نہیں سمجھتے‘ حالا نکہ یہ دوسری بدعتوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اس کے اثرات اتنے دور رس ہیں کہ شاید کسی اور بدعت کے ایسے نہ ہوں۔ بدعت کی خاصیت جیسا کہ حدیث میں آتا ہے یہ ہے کہ یوں ہی کوئی بدعت آتی ہے اسی قسم کی ایک سنت اٹھ جاتی ہے جو تاقیامت نہیں لوٹتی۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی سے اسلامی سیاست ایسی نکلی ہے کہ اب اسلامی سیاست ان کی سمجھ میں ہی نہیں آتی۔ وہ ا ب جمہوریت کو ہی اسلامی سمجھنے لگ گئے ہیں اور جماعتی اور ملکی سیاست میں الیکشنوں کے عادی ہو گئے ہیں۔ مولانا اﷲ نے آپ کو بہت اونچا مقام دیا ہے ‘آپ کی زبان و قلم سے جو بات نکلتی ہے وہ اثر رکھتی ہے۔ خاص کر آپ کی جماعت کے لیے تو وہ ہدایت کا سبب بھی بن سکتی ہے اور گمراہی کا بھی۔ اس لیے آپ کو بہت احتیاط چاہیے۔ آ پ کو چاہیے کہ ماحول سے بالکل متاثر نہ ہوں۔ نہ کسی غیر اسلامی نظریہ کو خاطر میں لائیں۔ سلف کی راہ سے ایک انچ بھی نہ ہٹیں۔ ان کی راہ کامیابی کی راہ ہے اور ایک آزمودہ راہ ہے اس پر چلنے میں بڑی برکتیں ہیں۔ مولانا یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ کل جن نظاموں کو آپ لات و منات بتاتے تھے ‘ آج خود ان کے پجاری ہیں۔ پہلے جمہوریت آپ کے نزدیک منات تھی آج وہ آپ کی اور آپ کی جماعت کی سیاست ہے۔ اس لیے کہنا پڑتا ہے اچھرے والا مودووی ‘ دارالسلام والا مودودی نہیں رہا۔ بہت فرق پڑ گیا ہے ‘ دارالسلام والا مودودی اسلامی زیادہ ہے ‘ اچھرے والا سیاسی زیادہ ہے۔ کیوں مولانا یہ صحیح ہے یا نہیں ؟ اگر شبہ ہو تو اپنا قدیم اور جدید لٹریچر اٹھا کر دیکھ لیں۔ مولانا چاہیے تو یہ تھا کہ آپ ملکی سیاست کو اسلامی بناتے‘ آپ نے ماحول سے متاثر اور مرعوب ہو کر اسلام کو سیاسی بنا دیا۔مولانا آپ نے جو اسلامی جمہوریت کا پودا لگایا ہے ‘ پتا نہیں کب تک اور کتنے لوگوں کے لیے یہ فتنہ بنا رہے۔ اگر آپ نے اپنی زندگی میں اس کو اپنے ہاتھوں سے اکھاڑ نہ پھینکا تو نہ جانے کتنے بوجھ آپ پر پڑیں ‘ اس لیے اپنی زندگی میں ہی اس کو صاف کرکے اسلامی سیاست کا بیج بوئیں۔مولانا یہ ٹھیک ہے کہ اسلامی سیاست کی راہ ‘ اسلامی جمہوریت کی طرح عافیت کی راہ نہیں ‘بہت کٹھن ہے ‘ پرخطر ہے ‘ جان لیوا ہے‘ صبر آزما ہے لیکن ہے یقینی ۔ کیوں کہ جہاد کی راہ ہے۔ جب پہنچائے گی خواہ دیر سے ہی پہنچائے‘ پہنچائے گی ٹھکانے۔ جمہوریت کی طرح لٹکائے ٹرخائے گی نہیں۔ مولانا اسلامی تاریخ دیکھ لیں۔ اسلام جب آتا ہے‘ کفر کو پچھاڑ کر آتا ہے۔ یہ نہیں کہ کفر کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اس کے ساتھ آئے۔ اس کے آنے کا انداز قرآن بیان کرتا ہے۔ ( جَآءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ ) مولانا اسی لیے جمہوریت خواہ اسلامی ہی ہو ‘ اسلام نہیں لا سکتی۔ اگر جمہوریت اپنی بے بسی میں کبھی اسلام لائے بھی تو کفر کے ہاتھوں سمجھوتہ کرکے لائے گی‘ تاکہ کفر کے لیے کارروائی کا موقع رہے اور( جَآءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ )[17:الاسراء:81]والی بات نہ بنے اور اسلام ( جَآءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ ) کے انداز سے نہیں آتا ‘وہ نہیں رہتا۔ پاکستان کب سے اسلامی بنا ہے ‘ قرارداد مقاصد کو پاس ہوئے کتنا عرصہ ہو گیا ہے ‘ لیکن چونکہ درمیان میں جمہوریت کاہاتھ رہا ہے‘ اس لیے آج تک پاکستان میں اسلام کے پاؤں نہیں لگے۔ جنرل ضیاء نے کتنا شور مچایا‘ آ گیا اسلام ‘ آگیا۔ لیکن کوئی نہ آیا۔ چوں کہ جمہوریت کا کفر ساتھ ہے۔ مولانا اسلام کبھی نہیں آتا جب تک کفر کو پچھاڑ نہ دے کفر پر چڑھ نہ جائے‘ کفر کو مسل نہ دے کہ پھر اٹھنے کے قابل نہ رہے اور یہ جمہوریت کے تحت کبھی نہیں ہو سکتا۔ اسلامی سیاست ہی ایسا کر سکتی ہے۔ مولانا اسلامی سیاست کیا چیز ہے ؟ اسلام لانے کی اسلامی کوشش ‘ جو بھٹو اور ایوب جیسے کفر کے آئینوں سے آزاد ہو کر اسلام لانے کی نیت سے کی جائے۔ مولانا اسلام میں کوئی کوشش غیر اسلامی نہیں جو اسلام کے لیے کی جائے اور اسلام پر منتج ہو۔ یہ ذہن کا بگاڑ ہے‘ یہ جمہوریت کا اثر ہے کہ آئین ایوب اور بھٹو بنائیں اور ہم اسلامی بن کر ان آئینوں کی پابندی کرتے رہے۔ اسلام کفر کے آئینوں کے دماغ توڑنے سکھاتا ہے‘ نہ کہ ان کی پابندی کرنا۔ قرآن کہتا ہے:( بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہ‘ فَاِذَا ھُوَ زَاھِقٌ )[21:الانبیاء:18]

مولانا پاکستان میں اسلام لانا پاکستان کو از سر نو فتح کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان اسلام کے قبضے میں کبھی بھی نہیں آیا۔ پہلے یہ انگریز کے قبضے میں تھا اب اس کی پاکستانی اولاد کے قبضے میں ہے‘ جو باپ سے بھی زیادہ شاطر ہیں۔ ملک کو ان سے چھڑانا از سر نو فتح کرنا ہے‘ جس کے لیے جمہوریت کفر کی بچی کام نہیں دے گی‘ اسلامی سیاست ہی کام دے گی ۔ مولانا اگر ہمیں پاکستان میں اسلام لانا ہے توہمیں ﷲ کے رسول ﷺ اور صحابہؓ کو دیکھنا ہوگا۔ جمہوریت کو چھوڑ کر ان کی سیاست اور تدبیر کو اپنا نا ہوگا۔ ان جیسے کارنامے انجام دینے ہوں گے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہمیں ان شاء ﷲ یقیناًکامیابی ہوگی۔ اور اگر ہم اپنے اسلاف کو چھوڑ کر کفر کے نظام جمہوریت کے پیچھے پڑے رہے تو خَسِرَالدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃ[22:الحج:11]والا ہمارا انجام ہوگا۔ مولانا پاکستان کے جو حالات ہیں‘ ان سے متاثر ہو کر اپنا دینی فریضہ سمجھ کر میں نے یہ چند اوراق تحریر کیے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت ملک میں سیاست کے میدان میں سوائے جماعت اسلامی کے کوئی ایسی جماعت نہیں جس سے اصلاح احوال کے لیے کچھ کہا سنا جا سکے۔ اس لیے میں نے آپ کو اور آپ کی جماعت کو مخاطب کیا ہے۔ مولانا اگر انداز تحریر میں کوئی تلخی یا بے باکی ہے تو وہ حالات کی تلخی اور شدت کی وجہ سے ہے کہ حالات کیا ہیں اور جماعت اسلامی کیا کر رہی ہے۔ ملک الیکشنوں کی وجہ سے ختم ہونے کو ہے اور یہ الیکشن کا ورد کر رہی ہے۔ یہ تلخی کسی کی تنقیص کے لیے نہیں بلکہ دینی غیرت کے تحت اصلاح و تعمیر کے لیے ہے۔ امید ہے کہ آپ بھی محسوس نہیں کریں گے اور اصل مسئلے پر غور فرما کر اصلاح احوال کی کوشش فرمائیں گے۔

و ما علینا الا البلاغ

*****

۱ (بخاری ‘ کتاب احادیث الانبیاء باب قول اﷲ تعالیٰ (فاتخذاﷲ ابراھیم خلیلا ) ص 271 رقم 3353۔۔۔ مسلم کتاب الفضائل ‘ باب من فضائل یوسف علیہ السلام ص 1096 رقم 168)

۲ (مشکوۃ 1088/2‘ کتاب الامارۃ والقضاء ‘فصل اول 3673‘من حدیث ام سلمۃؓ ۔۔ صحیح مسلم ‘ کتاب الامارۃ ‘ باب فی طاعۃ الامراء و ان منعوا الحقوق‘ ص 1009 رقم 50-49:)

۳ (صحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ ‘ باب وجوب الوفاء ببیعۃ الخلیفۃ الاول فالاول ص 1009‘ رقم 45۔۔ مشکوۃ ‘1087/2 کتاب الامارۃ والقضا ‘ فصل اول رقم 3682:)

۴ (مشکوۃ ‘1097/2 کتاب الامارۃ والقضاء رقم 3718)

۵ ( مسند احمد 75/6 رقم 23945‘ حدیث السیدۃ عائشۃ ؓ 87/6رقم 24045 ایضا 149/6 رقم 24636۔۔ جامع الترمذی ‘ کتاب المناقب ‘باب منع النبی ﷺ ان لا یخلع القمیص الذی یقصمہ اﷲ ایاہ‘ ص 2033رقم 3705:)

۶ (صحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ ‘ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ و تحریمھا فی المعصیۃ ص 1009 رقم 42 ۔۔ ابن ماجۃ ‘ کتاب الجہاد ‘باب البیعۃ ص 2650رقم 2866‘ مشکوۃ‘ کتاب الامارۃ ‘والقضاء ص 1086رقم 3666)

۷ ( ابوداو‘د : کتاب الجہاد ‘ باب الکراھیۃ ترک الغزو‘ ص 1408 رقم 5202۔۔ نسائی ‘ کتاب الجہاد ‘ باب التشدید فی ترک الجہاد‘ ص 2287‘ رقم 3099)

2 تبصرے

  1. ابیحہ کرن صاحبہ ۔ ۔ قرآن وحدیث کی باتوں کو بکواس کہتے ہوئے تمہیں اللہ کا ذرا بھی خوف نہیں آیا ۔۔۔ کیسی مسلمان ہو تم

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی